بی بی سی کی ایک تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ غزہ میں جن جگہوں پر امداد تقسیم کی جاتی ہے، وہ اپنی مسلح حفاظت کے لیے اسلام دشمنی کی تاریخ رکھنے والے امریکی بائیکر گینگ کے ارکان کو استعمال کر رہی ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ مراکز نہ تو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر قائم تھے اور نہ ہی عام شہریوں کے زیرِانتظام بلکہ انہیں ایک نجی سیکیورٹی کمپنی چلا رہی تھی جس نے امریکی موٹر سائیکل گینگ ‘انفیڈلز’ کو خدمات پر مامور کر رکھا تھا،یہ گروہ عراق جنگ کے سابق فوجیوں پر مشتمل ہے جو صلیبی نعروں اور اسلام دشمنی کے کھلے اظہار کے لیے بدنام ہے گینگ کے سربراہ جانی ملفورڈ سابق امریکی فوجی تھا جسے چوری اور غلط بیانی پر سزا ہوئی تھی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی تفتیشی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گینگ کے 7 نمایاں رہنما ان مراکز میں سیکیورٹی انتظامات کی قیادت کر رہے ہیں جبکہ انہیں روزانہ 1580 ڈالر تک تنخواہ دی جاتی ہے اور یہ لوگ ’میک غزہ گریٹ اگین‘ جیسے اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہیں،یہ گینگ مسلمانوں کی توہین کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں اور رمضان المبارک میں خنزیر کے گوشت کی باربی کیو محفلوں کا انعقاد کرتا ہے اب یہی گروہ بھوکے پیاسے فلسطینیوں کی زندگیوں کا انچارج بنا دیا گیا ہے جنہیں روٹی کے ایک ٹکڑے کی تلاش تھی۔
محکمہ موسمیات کی موسلادھار بارشوں کی پیشگوئی
امریکی انسانی حقوق کی تنظیم کیر کے مطابق یہ کوئی انسانی عمل نہیں بلکہ ایک سخت گیر سیکیورٹی کھیل ہے جو المیے کو بڑھا رہا ہے اور قابض طاقتوں اور ان کے اتحادیوں کے اصل چہرے کو بے نقاب کر رہا ہے،اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی پٹی میں امدادی سامان حاصل کرنے والے 1500 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا ہے۔
ٹک ٹاک کی ملکیت کا معاملہ:امریکا اور چین نے فریم ورک معاہدہ کر لیا