غضب کی دھار تھی اک سائباں ثابت نہ رہ پایا
ہمیں یہ زعم تھا کہ بارش میں اپنا سر نہ بھیگے گا

زبیر رضوی

معروف شاعر سید زبیر رضوی 15 اپریل 1935ء کو امروہہ (اتر پردیش) میں ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے آل انڈیا ریڈیو کے ساتھ 30 سال تک کام کیا۔ انہوں نے دہلی اردو اکیڈمی کے سیکریٹری کے طور پر بھی دو سال تک خدمات انجام دیں21؍فروری 2016ء کو زبیرؔ رضوی انتقال کر گئے۔

ان کے دیگر مجموعہ کلام یہ ہیں:
لہر لہر ندیا گہری (مجموعہ کی نظمیں)، کشتِ دیوار، مسافتِ شب، پرانی بات ہے، دھوپ کا سائباں ، انگلیاں فگار اپنی، وغیرہ شامل ہیں۔ وہ اعلیٰ اردو میگزین "ذہنِ جدید” کے ایڈیٹر تھے۔

بحوالہ ریختہ ڈاٹ کام

زبیرؔ رضوی کے چند منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادھر ادھر سے مقابل کو یوں نہ گھائل کر
وہ سنگ پھینک کہ بے ساختہ نشانہ لگے

اپنی پہچان کے سب رنگ مٹا دو نہ کہیں
خود کو اتنا غمِ جاناں سے شناسا نہ کرو

بھٹک جاتی ہیں تم سے دور چہروں کے تعاقب میں
جو تم چاہو مری آنکھوں پہ اپنی انگلیاں رکھ دو

پرانے لوگ دریاؤں میں نیکی ڈال آتے تھے
ہمارے دور کا انسان نیکی کر کے چیخے گا

دل کو رنجیدہ کرو آنکھ کو پر نم کر لو
مرنے والے کا کوئی دیر تو ماتم کر لو

تم جہاں اپنی مسافت کے نشاں چھوڑ گئے
وہ گزر گاہ مری ذات کا ویرانہ تھا

تم اپنے چاند تارے کہکشاں چاہے جسے دینا
مری آنکھوں پہ اپنی دید کی اک شام لکھ دینا

زندگی جن کی رفاقت پہ بہت نازاں تھی
ان سے بچھڑی تو کوئی آنکھ میں آنسو بھی نہیں

سخن کے کچھ تو گہر میں بھی نذر کرتا چلوں
عجب نہیں کہ کریں یاد ماہ و سال مجھے

شام کی دہلیز پر ٹھہری ہوئی یادیں زبیرؔ
غم کی محرابوں کے دھندلے آئینے چمکا گئیں

عجیب لوگ تھے خاموش رہ کے جیتے تھے
دلوں میں حرمتِ سنگِ صدا کے ہوتے ہوئے

غضب کی دھار تھی اک سائباں ثابت نہ رہ پایا
ہمیں یہ زعم تھا بارش میں اپنا سر نہ بھیگے گا

گلابوں کے ہونٹوں پہ لب رکھ رہا ہوں
اسے دیر تک سوچنا چاہتا ہوں

نئے گھروں میں نہ روزن تھے اور نہ محرابیں
پرندے لوٹ گئے اپنے آشیاں لے کر

کوئی ٹوٹا ہوا رشتہ نہ دامن سے الجھ جائے
تمہارے ساتھ پہلی بار بازاروں میں نکلا ہوں

کہاں پہ ٹوٹا تھا ربط کلام یاد نہیں
حیات دور تلک ہم سے ہم کلام آئی

ہم نے پائی ہے ان اشعار پہ بھی داد زبیرؔ
جن میں اس شوخ کی تعریف کے پہلو بھی نہیں

تھا حرفِ شوقِ صید ہوا کون لے گیا
میں جس کو سن سکوں وہ صدا کون لے گیا

کبھی خرد سے کبھی دل سے دوستی کر لی
نہ پوچھ کیسے بسر ہم نے زندگی کر لی

تشبیہوں کے رنگِ محل میں کوئی نہ تجھ کو جان سکا
گیت سنا کر غزلیں کہہ کر دیوانے کہلائے ہم

یہ زمیں ٹوٹے ہوئے چاند کی کھیتی ہے زبیرؔ
میری راتوں میں بپا کوئی بھی عالم کر لو

Shares: