پاسبانِ ناموس رسالت غازی علم دین شہید–از… صالح عبداللہ جتوئی

0
56

میں اپنی بات کا آغاز شاعر رسول صل اللہ علیہ و سلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ کی نعت سے کروں گا جس میں انہوں نے کیا خوب انداز میں آمنہ کے لال کی شان بیان کی ہے اور گستاخان کو سختی سے تنبیہ کی ہے۔ اسکا اردو ترجمہ یہ ہے.

"نبی کی شان اقدس پہ زبانیں جو نکالیں گے
خدا کے حکم سے ایسی زبانیں کھینچ ڈالیں گے”
اللہ کے نبی صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے۔
"کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھے اپنے مال جان اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ جان لے.”

اس فرمان کے مطابق ہم پہ یہ لازم ہے کہ ہم محسن انسانیت صل اللہ علیہ وسلم کی حرمت کے پاسبان بنیں اور اسی میں ہماری اخروی کامیابی کا راز پنہاں ہے۔ ہر دور میں گستاخ رسول پیدا ہوۓ ہیں اور ہر دور میں وہ ذلیل وخوار ہو کے عبرت کا نشان بنے ہیں اور میرے آقا صل اللہ علیہ وسلم نے بھی گستاخان کا سر قلم کرنے کا حکم دیا ہے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے گستاخان ملعون ہیں، جہاں بھی پائے جائیں، پکڑ لئے جائیں اور بُرے طریقے کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں۔” اور آیت نمبر 62 میں پھر اسے اللہ کی سنت اور قانون قرار دیا گیا ہے یعنی توہین رسالت کے بارے قانونِ الہٰی یہی ہے کہ ایسے ناپاک ملعون لوگ بُری سزا کے حقدار اور واجب القتل ہیں۔ سورۃ الاحزاب کی آیت 56 سے لے کر آیات 62 تک کا مفہوم ومراد یہی ہے. ”کعب بن اشرف کو اس لئے قتل کیا کہ اس نے نبی کریمﷺ کے عہد کو توڑا۔ آپ ﷺ کی توہین کی اور آپ کو گالی دی اور اس کا یہ معاہدہ تھا کہ وہ آپﷺ کے خلاف کسی کی مدد نہیں کرے گا پھر وہ آپﷺ کے خلاف اہل حرب کا معاون بن گیا۔”

محمد بن مسلمہ وغیرہ کو جب کعب کے قتل کے لئے روانہ فرمایا تو آپﷺ ان کے ہمراہ بقیع غرقد تک خود تشریف لے گئے اور اللہ کے نام پر اُنہیں روانہ کیا اور ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا چاند پہ تھوکنے کے مترادف ہے اور یہ گٹر کے کیڑے جب گستاخی کرتے ہیں تو خوف کے مارے مسلمانوں سے چھپتے پھرتے ہیں اور زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں.

کیونکہ مسلمان اپنی توہین تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن نبی کی حرمت پہ آنچ نہیں آنے دیتے صحابہ کے بعد قربان ہونیوالی شخصیت غازی علم دین ہیں جنہوں نے ہر کسی کے دل میں گھر کیا غازی علم دین 4 دسمبر 1908 میں پیدا ہوۓ ان کا تعلق ایک غریب ترکھان خاندان سے تھا اور وہ ایک دیہاڑی دار ترکھان تھے جو ہر روز اوزار لے کر کام کے لیے جاتے تھے اس دور میں ایک شخص مہاشے راجپال انڈین نے 1927 میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور اس نے ایک کتاب لکھی جس کا نام رنگیلا رسول تھا

جس سے وہاں کے مسلمان بہت زیادہ مشتعل ہو گئے اور جلسے جلوس کی صورت میں باہر نکل آۓ اور ان کو کنٹرول کرنے کے لیے راج پال کو گرفتار کر لیا گیا لیکن لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے راج پال کو قانونی سقم کو بنیاد بنا کر رہا کر دیا اور مسلمانوں میں محشر برپا ہو گیا اور بھاری تعداد میں مسلمان سڑکوں پہ آ گئے اور دفعہ 144 کے باوجود ایک جلسہ عام کیا جس میں اس دور کے بہت بڑے خطیب عطاء اللہ شاہ بخاری نے بہت زبردست خطاب کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوب شان بیان کی جس نے مسلمانوں کے دل میں جوش و ولولہ پیدا کر دیا ایک دن معمول کے مطابق غازی علم دین 6 ستمبر 1929 جو کام پہ جا رہا تھا تو راستے میں اس نے عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا ظفر علی خان کی حرمت رسول پہ دل کو گرما دینے والی تقاریر سنی اور سَکتے میں آگئے اور اسی وقت انہوں نے دکان سے ایک چاقو خریدا۔

وہ جلد سے جلد شاتم رسول کو جہنم کی طرف عازم سفر کرنا چاہتے تھے۔ اتنے میں راج پال دفتر پہنچ گیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھنے ہی لگا کہ غازی علم الدین نے پتلون میں چھپا خنجر نکالا اور پلک جھپکنے سے پہلے علم الدین راج پال پر جھپٹ پڑے اور اسکے سینے پر بیٹھ کر پے درپے اس پر خنجروں کے وار کر دیے۔ اتنا عظیم معرکہ انجام دینے کے بعد علم الدین نے بھاگنے کی بالکل کوشش نہیں کی بلکہ خود کو ملازموں کے حوالے کر دیا اور ملازموں نے پولیس کو بلایا تو پولیس علم الدین کو گرفتار کر کے لے گئی اور اس وقت کئی لوگوں نے اس پہ طرح طرح کی باتیں کیں اور غازی علم دین کو غلط ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی کبھی کہا جاتا کہ قانون ہاتھ میں لیا گیا ہے اور کبھی یہ کہا گیا کہ یہ کیسا نبی ہے جس کی حرمت کے تقدس میں اپنے ہاتھ خون آلود کیے جائیں لیکن غازی علم دین کا یہ اقدام اس لیے تھا کیونکہ وہاں پہ ناموس رسالت کا کوئی قانون نہیں تھا

سو وہ اس جاہلانہ مہم میں ناکام ہو گئے اور اس میں قادیانیوں نے بھرپور حصہ لیا تھا جو اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں. محب رسول میں گرفتار غازی علم دین شہید کو 31 اکتوبر کو میانوالی جیل میں پھانسی دے دے گئی اور پھانسی کے وقت انہوں نے رسے کو بوسہ دیا اور مسکرا رہے تھے کیونکہ وہ مر کے امر ہونے والے تھے اور جنتوں کے مہمان بننے والے تھے اللہ نے انہیں سرخرو فرمایا اور ان کا جنازہ لاہور کی تاریخ میں سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں 6 لاکھ افراد نے شرکت کی اور جنازہ کا جلوس پانچ میل لمبا تھا ان کا جنازہ پڑھانے کا شرف قاری شمس الدین کو ہوا جو مسجد وزیر خان کے خطیب تھے علامہ اقبال جیسی مفکر شخصیت بھی ان کی قسمت پہ رشک کر رہے تھے اور خود انہوں نے غازی علم دین کو لحد میں اتارا اور ساتھ یہ کہا
"آج لوہاروں کا لڑکا ہم جیسے پڑھے لکھے لوگوں سے بازی لے گیا.”

مناسب قانون کے نہ ہونے سے گٹر کے کیڑے نکلتے رہتے ہیں اور انکا بھرپور جواب دینے کے لئے اللہ نے غازی علم دین جیسے ہیرے بھی پیدا کیے ہیں جو ان شاتموں کا کام تمام کرنے کے لیے کافی ہیں.
اسی طرح جب ناموس کے قانون سزا دینے سے قاصر ہو گئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے شاتم رسول کا کام تمام کرنے کے لیے علم دین کو چن لیا اور اس نے ثابت کر دیا کہ ہر دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کے پاسبان موجود ہیں جو کٹ تو سکتے ہیں لیکن یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کے نبی کی شان میں کوئی گستاخی کرے.
اللہ سے دعا ہے اللہ ہمیں حرمت رسول صل اللہ علیہ و سلم کا محافظ بناۓ اور انکی سنتوں پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین ثمہ آمین..
گستاخ رسول کی سزا
سر تن سے جدا
حرمت رسول پہ جان بھی قربان ہے

پاسبانِ ناموس رسالت غازی علم دین شہید–از… صالح عبداللہ جتوئی

Leave a reply