امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے تناظر میں اپنے غیر سفارتی عملے کے رضاکارانہ انخلا کی منظوری دے دی ہے۔ یہ اعلان امریکی وزیر دفاع کی جانب سے کیا گیا، جس کا مقصد فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔
امریکی عہدیدار نے برطانوی خبر ایجنسی سے گفتگو میں بتایا کہ سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے اور خطے میں موجود اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اپنی سیکورٹی حکمت عملی کو فعال رکھنے کے لیے تیار ہے، تاہم اس وقت غیر سفارتی عملے کے رضاکارانہ انخلا پر زور دیا جا رہا ہے تاکہ ممکنہ خطرات سے بچا جا سکے۔امریکہ نے بحرین اور عراق میں بھی اپنے غیر سفارتی عملے کو انخلا کی ہدایات جاری کی ہیں تاکہ خطے میں ممکنہ کشیدگی کی صورت میں تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق، امریکی حکام نے سکیورٹی صورتحال کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا ہے۔
دوسری جانب، ایران نے امریکہ کو سخت انتباہ جاری کیا ہے کہ اگر دونوں کے درمیان کوئی تنازعہ شروع ہوتا ہے تو ایران مشرق وسطیٰ میں موجود تمام امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنائے گا۔ ایرانی وزیر دفاع عزیز ناصر زادے نے غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر جوہری معاہدے پر دوبارہ اتفاق نہ ہوا اور امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو اس کا جواب سخت ہوگا۔ناصر زادے نے مزید کہا کہ اگر ایران پر جنگ مسلط کی گئی تو دشمن کو اس کے نقصانات ایران سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مذاکرات کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور صورتحال کشیدہ نہیں ہوگی، لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو ایران خطے میں امریکی اڈوں پر حملے کرنے سے ہچکچائے گا نہیں۔انہوں نے کہا، "خطے میں موجود تمام امریکی اڈے ایران کی پہنچ میں ہیں اور حملے کی صورت میں امریکہ کو اس خطے سے نکلنا پڑے گا۔”
ادھر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے تک پہنچنے کی ان کی امید کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ ایران اور امریکہ یورینیم کی افزودگی کے معاملے پر شدید سفارتی کشیدگی کا شکار ہیں اور دونوں ممالک اپریل سے اب تک پانچ بار مذاکرات کر چکے ہیں تاکہ 2015 کے جوہری معاہدے کی جگہ ایک نیا معاہدہ کیا جا سکے۔
مشرق وسطیٰ کی اس کشیدہ صورت حال نے خطے میں بین الاقوامی سطح پر تشویش کی لہر دوڑا دی ہے اور ممکنہ عسکری جھڑپ کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ امریکی انتظامیہ اور ایرانی حکام کے درمیان جاری کشیدگی نے عالمی برادری کو بھی چوکس کر دیا ہے۔