پاکستان کی عدلیہ ان دنوں تنازعات کی زد میں ہے، خاص طور پر سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے حالیہ طرزِ عمل پر۔ ان ججز کی جانب سے عدالتی روایات اور غیر جانبداری کے اصولوں کے برخلاف رویے نے عوام میں عدلیہ کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ان کی حرکات اور بیانات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ عدالتی اتحاد اور پروفیشنل اقدار کو اہمیت نہیں دے رہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان ججز کو عدلیہ کی بھلائی کے لیے جلد ریٹائرمنٹ لینے پر غور نہیں کرنا چاہیے؟
جسٹس منصور علی شاہ کا متنازع رویہ
جسٹس منصور علی شاہ کا حالیہ طرز عمل ایک خاص پریشانی کا باعث ہے۔ ان کا سابق چیف جسٹسز، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے الوداعی تقریبات میں شرکت نہ کرنا ایک حیرت انگیز اور اختلافی قدم ہے۔ ان تقریبات کی اہمیت محض روایتی نہیں بلکہ یہ عدلیہ میں احترام، تسلسل اور ہم آہنگی کی علامت ہوتی ہیں۔ کسی سینئر جج کا ان تقریبات میں شرکت سے گریز کرنا ان کے ادارے کے لیے احترام اور ہم آہنگی کے اصولوں کے خلاف ہے۔
ایسی تقاریب عدلیہ کے اندر ایک دوسرے کے کام اور خدمات کا اعتراف کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں اور باہمی ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہیں۔ جسٹس شاہ کا عدم شرکت کا فیصلہ ان کے خیالات اور ان کی ترجیحات پر ایک سوالیہ نشان ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ شاید وہ اپنے آپ کو عدالتی روایت سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ عدلیہ جیسے ادارے میں، جو پہلے ہی اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے، یہ ضروری ہے کہ اس کے ممبران ہم آہنگی اور باہمی احترام کا مظاہرہ کریں۔
جسٹس شاہ کا الزامی بیان اور اس کے اثرات
اس سے بھی زیادہ تشویش ناک جسٹس منصور علی شاہ کا حالیہ عوامی بیان ہے، جس میں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر عدلیہ میں انتشار پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔ بظاہر یہ بیان ذاتی تعصب پر مبنی معلوم ہوتا ہے، نہ کہ کسی ٹھوس بنیاد پر۔ اس بیان سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وہ اپنی عدم شرکت اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ بظاہر سرد مہری کو چھپانے کے لیے دوسروں پر بلاوجہ تنقید کر رہے ہیں۔
عوام کو توقع ہوتی ہے کہ ان کے اعلیٰ جج صاحبان سچائی اور وقار کا مظاہرہ کریں گے اور بلا تحقیق الزامات نہیں لگائیں گے۔ کسی جج کی جانب سے اس طرح کے الزامات ادارے کے وقار پر دھبہ ثابت ہوتے ہیں اور عوام میں عدلیہ کے وقار کو مجروح کرتے ہیں۔ عوام عدلیہ سے غیر جانبداری اور اعلیٰ معیار کی توقع کرتے ہیں، نہ کہ ذاتی اختلافات کو پبلک فورمز پر لے جانے کا۔
جسٹس منیب اختر پر سوالات
دوسری جانب، جسٹس منیب اختر کا طرز عمل بھی مشکوک قرار دیا جا رہا ہے، خاص طور پر ان کی بعض سیاسی مفادات کے ساتھ وابستگی کی خبروں نے ان کی غیر جانبداری پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ عدلیہ کے ممبران کو اپنے اصولوں اور عدالتی فیصلوں میں عدل و انصاف اور غیر جانبداری کو برقرار رکھنا ضروری ہے، لیکن جسٹس منیب کے کچھ فیصلے اور ان کا سیاسی موضوعات میں جھکاؤ ان کے عہدے کی غیر جانبداری کے اصول کے منافی معلوم ہوتا ہے۔
جب کسی جج کی طرف سے سیاسی جھکاؤ کا تاثر دیا جائے تو عدالتی عمل کی شفافیت مشکوک ہو جاتی ہے، اور عوام کا اعتماد کمزور ہوتا ہے۔ یہ تاثر عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ عدلیہ کے فیصلے شاید کسی خارجی اثر کے تحت لیے جا رہے ہیں، جو عدلیہ کے وقار اور غیر جانبداری کے اصول کو مجروح کرتا ہے۔
عدلیہ کی ضرورت اور ان ججز کا کردار
پاکستان کی عدلیہ ایک اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ بیرونی دباؤ اور عوامی جانچ کے اس دور میں یہ نہایت ضروری ہے کہ عدلیہ کے ججز پروفیشنلزم، غیر جانبداری، اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کریں۔ سینئر ججز، خاص طور پر جسٹس شاہ اور جسٹس اختر، جو ان اصولوں کی پاسداری نہیں کر سکتے، وہ نہ صرف ادارے بلکہ ان عوام کی بھی خدمت میں کوتاہی کر رہے ہیں جن کی وہ خدمت کا حلف اٹھاتے ہیں۔ ایسے میں ان ججز کو ایمانداری سے یہ سوال اپنے آپ سے کرنا چاہیے کہ کیا وہ اپنی ذمہ داریوں کے تقاضے پورے کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ اگر نہیں، تو ان کے لیے معززانہ انداز میں ریٹائرمنٹ کا فیصلہ زیادہ بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔
عدلیہ کا وقار، غیر جانبداری اور باہمی احترام کی ضرورت
عدلیہ کے وقار، غیر جانبداری اور احترام کے اصول محض اخلاقیات نہیں بلکہ عدلیہ کی طاقت کا بنیادی حصہ ہیں۔ عدلیہ کے سامنے ان اصولوں کی پاسداری ان مشکل وقتوں میں مزید ضروری ہو جاتی ہے۔ جسٹس شاہ اور جسٹس اختر کے اقدامات نے ان اصولوں پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں، جس کے باعث عدلیہ کے لیے غیر جانبدارانہ انداز میں اپنے کردار کو نبھانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اگر یہ سینئر ججز عزت و وقار کے ساتھ خود ریٹائر ہو جائیں تو عدلیہ ایک نیا آغاز کر سکتی ہے جس سے اس کے غیر جانبداری اور انصاف کے اصولوں کو مزید مضبوطی ملے گی۔
وقت آ چکا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر سنجیدگی سے اس بات پر غور کریں کہ ان کی موجودگی اور ان کے اقدامات ادارے کے لیے کیسا پیغام دیتے ہیں۔ عدلیہ اس وقت مؤثر انداز میں کام نہیں کر سکتی جب اس کے ممبران خود ان اصولوں کو پامال کریں جن کی عدلیہ حفاظت کرنے کے لیے موجود ہے۔ اگر یہ سینئر ججز ادارے کے وقار، اتحاد، اور احترام کو ترجیح دینے کے لیے تیار نہیں تو ان کا معززانہ انداز میں ریٹائرمنٹ کا فیصلہ ہی مناسب ہوگا۔
یہ مشکل فیصلہ عدلیہ کے وقار، عوام کے اعتماد اور عدالتی نظام کے لیے ضروری ہے








