ملک کے بالائی علاقوں میں مسلسل بارشوں اور دریائے سندھ میں پانی کے غیر معمولی اضافے کے باعث سیلابی صورتحال سنگین ہوگئی ہے۔ لاڑکانہ، گھوٹکی اور کشمور کے اضلاع میں ہزاروں افراد متاثر اور وسیع رقبہ زیرِ آب آگیا۔
لاڑکانہ میں زمینداری بند میں 100 فٹ چوڑا شگاف پڑنے کے نتیجے میں سیلابی پانی کا تیز ریلا درگاہ ملوک شاہ بخاری میں داخل ہوگیا، جس کے بعد پانی تیزی سے زرعی زمینوں اور آبادیوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مقامی زمینداروں اور رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اگر شگاف بند نہ ہوا تو مزید سینکڑوں ایکڑ رقبہ اور درجنوں دیہات متاثر ہوسکتے ہیں۔ادھر گھوٹکی میں قادرپور گیس فیلڈ کے 10 کنویں سیلابی پانی سے متاثر ہوکر بند ہوگئے، جس کے باعث علاقے میں گیس کی فراہمی معطل ہوگئی ہے۔ توانائی کے ماہرین کے مطابق گیس کی بندش سے ملکی سطح پر بھی سپلائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال قابو میں آتے ہی متاثرہ کنوؤں کی بحالی کا عمل شروع کیا جائے گا۔
کشمور میں دریائے سندھ میں گڈو بیراج کے مقام پر پانی کے بہاؤ میں مزید اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جہاں اس وقت اونچے درجے کا سیلاب برقرار ہے۔ فلڈ کنٹرول ذرائع کے مطابق اگلے 48 گھنٹوں میں پانی کا دباؤ سکھر بیراج تک پہنچنے کا امکان ہے۔ تاہم انتظامیہ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ گڈو بیراج کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔انتظامیہ کے مطابق اب تک کچے کے علاقوں سے 30 ہزار افراد محفوظ مقامات پر منتقل کیے جاچکے ہیں، تاہم درجنوں دیہات اب بھی زیرِ آب ہیں اور وہاں کے باسی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر گھوٹکی کی تحصیل جان محمد علی کے گردونواح میں کئی بستیاں ڈوب گئی ہیں جبکہ متاثرین کا کہنا ہے کہ سرکاری سطح پر انخلا کا عمل تیز نہیں ہوا، جس کی وجہ سے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر دریائے سندھ میں پانی کی سطح مزید بلند ہوئی تو نہ صرف زرعی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا بلکہ گیس اور بجلی کی فراہمی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔