غیبت عام معاشرتی بیماری جس سے بچنے کی تلقین نبی مہربان ﷺ نے فرمائی آج ہم غیبت سے بچنے کے حوالے سے ہمارے پیارے نبی مہربان ﷺ کے فرامین کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے
” غیبت ” کے معنی ہیں پیٹھ پیچھے بدگوئی کرنا، یعنی کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کے متعلق ایسی باتیں کرنا کہ جس کو اگر وہ سنے تو ناپسند کرے۔مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 748
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کے اس عیب کو ذکر کرے کہ جس کے ذکر کو وہ ناپسند کرتا ہو آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ اگر واقعی وہ عیب میرے بھائی میں ہو جو میں کہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا اگر وہ عیب اس میں ہے جو تم کہتے ہو تبھی تو وہ غیبت ہے اور اگر اس میں وہ عیب نہ ہو پھر تو تم نے اس پر بہتان لگایا ہے۔صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2092
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بد گمانی سے بچو اس لئے کہ بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور نہ کسی کے عیوب کی جستجو کرو اور نہ ایک دوسرے پر حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور نہ بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو۔صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1022
، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور اللہ تعالیٰ کے بندے بھائی بھائی ہو کر رہو اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ جدا رہے (قطع تعلق کرے) ۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1023
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بغض نہ رکھو اور کسی سے حسد نہ کرو، اور نہ کسی کی غیبت کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہوجاؤ اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین رات سے زیادہ ترک تعلق کرے۔صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1030حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بدگمانی سے بچو اس لئے کہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور کسی کے عیوب کی جستجو نہ کرو اور نہ اس کی ٹوہ میں لگے رہو اور (بیع میں) ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو اور نہ حسد کرو اور نہ بغض رکھو اور نہ کسی کی غیبت کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہوجاؤ۔صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1662
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ غیبت کیا ہے فرمایا کہ اپنے بھائی کا ایسا تذکرہ کرنا جو اسے ناپسند ہو۔ کہا گیا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ اس کے بارے میں اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں جو کچھ کہہ رہا ہو اگر وہ اس کے اندر فی الواقع موجود ہو تو۔ فرمایا کہ غیبت جب ہوگی جب تو جو بات کہہ رہا ہے وہ اس کے اندر موجود ہو اور اگر وہ بات اس کے اندر موجود نہ ہو تو پھر تو نے اس پر بہتان لگایا۔سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1470
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی مسلمان کی غیبت کا نوالہ کھایا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے اس کے مثل جہنم کا نوالہ کھلائیں گے اور جس نے کسی مسلمان کی برائی کا لباس پہنا اللہ اسے اس کے مثل جہنم کا لباس پہنائیں گے اور جس شخص نے کسی کو شہرت و ریاکاری اور دکھلاوے کے مقام پر کھڑا کیا یا کسی شخص کی وجہ سے ریاکاری و شہرت کے مقام پر کھڑا ہوا تو اللہ قیامت کے روز اس سے ریاکاری اور شہرت کے مقام پر کھڑا کرے گا۔سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1476
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا ان کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی مشکل کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا ہے بلکہ ایک کو پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے اور دوسرے کو غیبت کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے۔سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 349
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” تم اپنے مرے ہوئے لوگوں کی نیکیاں ہی ذکر کر لیا کرو اور ان کی برائیوں کے ذکر سے بچتے رہو” ۔ ( ابوداؤد ، ترمذی)
تشریح
مرے ہوئے لوگوں کے نیک اعمال اور ان کی بھلائیوں کو اس لیے یاد اور بیان کرنا چاہئے کہ نیک اور نیکی کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے۔
مردوں کی نیکیوں کو ذکر کرنے کا جو حکم دیا جا رہا ہے وہ استحباب کے طور پر ہے لیکن ان کی برائیوں کے ذکر سے بچنے کا جو حکم دیا جا رہا ہے وہ وجوب کے طور پر ہے یعنی ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کی برائیاں ذکر نہ کرے اور اس فعل سے بچتا رہے چنانچہ حجۃ الاسلام نے لکھا ہے کہ مرے ہوئے لوگوں کی غیبت زندہ لوگوں کی غیبت سے کہیں زیادہ قابل نفریں ہے۔ کتاب ازہار میں علماء کا یہ قول لکھا ہوا ہے کہ ” میت کو نہلانے والا اگر میت میں کوئی اچھی علامت دیکھے مثلاً میت کا چہرہ روشن اور منور ہو یا میت میں سے خوشبو آتی ہو تو اسے لوگوں کے سامنےبیان کرنا مستحب ہے اور اگر کوئی بری علامات دیکھے مثلاً (نعوذباللہ) میت کا چہرہ یا بدن سیاہ ہو گیا ہو یا اس کی صورت مسخ ہو گئی ہو تو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرنا حرام ہے۔
@mmasief