گلگت بلتستان کے 24 حلقے، کون کہاں سے جیتے گا؟ مبشر لقمان نے متوقع ریزلٹ بتا دیا

0
49

گلگت بلتستان کے 24 حلقے، کون کہاں سے جیتے گا؟ مبشر لقمان نے متوقع ریزلٹ بتا دیا
باغی ٹی وی کی رپورٹ سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات 15 نومبر 2020 کو ہوں گے جس میں 23 حلقوں سے 326 امیدوار میدان میں ہیں جبکہ ایک حلقہ گلگت 3 وہ واحد حلقہ ہے جہاں پولنگ ملتوی کردی گئی ہے اور اب یہاں انتخابات نومبر 22کو ہونگے۔

مبشر لقمان آفیشیل یوٹیوب چینل پر مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اس الیکشن میں اس وقت اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان ہے۔ ان کے علاوہ جو جماعتیں وہاں اہم ہیں وہ وہاں کی 4 مذہبی جماعتیں ہیں جو وہاں اچھا خاصا ووٹ بنک رکھتی ہیں۔ ان میں دو سنی مذہبی جماعتیں ہیں اور دو شیعہ فرقے سے ہیں۔ جماعت اسلامی گلگت میں صرف تنظیمی حد تک موجود ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی پارٹی ضلع دیامر تک محدود ہے مگر وہاں اس کی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔ باقی 2 تنظیمیں مجلس وحدت المسلمین اور اسلامی تحریک ہیں جو ان انتخابات میں ضرور کچھ سیٹیں حاصل کر سکتیں ہیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ویسے تو گلگت بلتستان میں یہ ٹرینڈ رہا ہے کہ حکومتی جماعت ہی یہاں انتخابات جیتتی ہے لیکن اب کی بار پی ٹی آئی کی صورتحال کوئی زیادہ اچھی نہیں ہے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو پی ٹی آئی اندرونی طور پر زیادہ آرگنائز نہیں ہے۔ ان کی پارٹی میں بہت سی اندرونی لڑائیاں ہیں۔ اور کچھ انہوں نے کمپئین بھی لیٹ شروع کی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کئی ہفتوں سے گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں مہم چلا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن سے خود مریم نواز وہاں گئی ہوئی ہیں اور الیکشن کمپئین کر رہی ہیں اور یہ دونوں ارادہ رکھتے ہیں کہ یہ الیکشن کے دن تک وہاں ہی رہیں گے۔ تحریک انصاف نے امور کشمیر کے وزیر امین گنڈاپور کو وہاں بھیجا ہوا ہے۔ خیر اطلاعات مل رہی ہیں کہ اب جیسے جیسے وقت قریب آ رہا ہے تو اور بھی لوگوں کو یہ ٹاسک دیا جا رہا ہے کہ وہ وہاں جا کر پی ٹی آئی کی کمپئین کریں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اب حلقہ وار صورتحال دیکھتے ہیں کہ کون سی جماعت کس حلقے میں مضبوط ہے۔

GBA 1
گلگت ون۔
پاکستان تحریک انصاف۔ جوہر علی
پاکستان مسلم لیگ ن- جعفر اللہ خان
پاکستان پیپلز پارٹی- امجد حسین
رجسٹرڈ ووٹرز- 35,840
اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے امجد حسین سب سے مضبوط امیدوار ہیں۔

GBA 2
گلگت ٹو۔
پاکستان تحریک انصاف۔ فتح اللہ خان
پاکستان مسلم لیگ ن- حافظ حفیظ الرحمان
پاکستان پیپلز پارٹی- جمیل احمد
رجسٹرڈ ووٹرز- 41,259
ان تین جماعتوں کے علاوہ اس حلقہ میں تحریک اسلامی کے سابق رکن اسمبلی دیدارعلی ایک مضبوط امیدوار ہیں اورمسلم لیگ ن کے سابق وزیر اعلی حفیظ الرحمان سے ان کا بھرپور ٹکر کا مقابلہ ہو گا۔ اور یہ سیٹ ان میں سے ہی ایک کو ملے گی پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی کا یہاں چانس بہت مشکل ہے۔

GBA 3
گلگت تھری۔
پاکستان تحریک انصاف۔ ڈاکٹر اقبال
پاکستان مسلم لیگ ن- ذوالفقارعلی
پاکستان پیپلز پارٹی- آفتاب حیدر
رجسٹرڈ ووٹرز- 41,360
گلگت 3 وہ واحد حلقہ ہے جہاں پولنگ ملتوی کردی گئی ہے اور اب یہاں انتخابات نومبر 22کو ہونگے۔ گزشتہ انتخابات میں ڈاکٹر محمد اقبال ن لیگ کے ٹکٹ پر اس حلقے میں کامیاب ہوکر صوبائی وزیرتعمیرات رہ چکے ہیں انہوں نے حال ہی میں مسلم لیگ ن چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ اور اب وہ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ ڈاکٹر محمد اقبال سے پہلے اس حلقے سے پی ٹی آئی کے مقامی صدر جسٹس ریٹائرڈ سید جعفر شاہ امیدوار تھے۔ لیکن ان کا اچانک انتقال ہو گیا اسی وجہ سے اس حلقے کا الیکشن بھی ملتوی کیا گیا ہے۔ سید جعفر شاہ کے انتقال سے پہلے تک تحریک انصاف کی پوزیشن اس حلقے میں کافی مضبوط تھی لیکن اب وہاں پی ٹی آئی کی پوزیشن دن بہ دن کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ پارٹی کی اندرونی لڑائی ہے سید جعفر شاہ کے متبادل کے طور پر علاقائی نائب صدر شیر غازی ٹکٹ حاصل کرنے کے خواہشمند تھے لیکن پارٹی کی جانب سے ڈاکٹر اقبال کو ٹکٹ دیدیا گیا ہے۔ قیادت کے اس فیصلے سے ناراض ہو کر شیر غازی نے ڈاکٹر اقبال کے مقابلے میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات جمع کرادئیے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے امیدوارسید جعفر شاہ کے بیٹے سید سہیل عباس نے بھی پارٹی سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا تھا اور ٹکٹ نہ ملنے پرآزاد امیدوار کی حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرادئے ہیں۔ اب اگر تحریک انصاف شیر غازی اور سید سہیل عباس کو کاغذات نامزدگی واپس لینے کے لیے راضی نہ کرسکی تو پارٹی کا ووٹ تین حصوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ جس سے تحریک انصاف کی اس حلقے میں کامیابی کے امکانات بہت کم ہوجائیں گے۔ ڈاکٹر اقبال کے تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد مسلم لیگ (ن) نے ذولفقار علی کو ٹکٹ جاری کیا جو اپنا پہلا الیکشن لڑیں گے اس لئے ن لیگ کی جیت کے امکانات کافی کم ہیں۔

GBA 4
نگر ون۔
پاکستان تحریک انصاف۔ آغا ذوالفقارعلی
پاکستان مسلم لیگ ن- عارف حسین
پاکستان پیپلز پارٹی- امجد حسین
رجسٹرڈ ووٹرز- 23,171
اس حلقے میں پی ٹی آئی کے امیدوار بہت کمزور پوزیشن میں ہیں۔ اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور اسلامی تحریک کے باقر شیخ کا ہوگا۔

GBA 5
نگر ٹو۔
پاکستان تحریک انصاف۔ ایڈجسٹمنٹ کی ہوئی ہے
پاکستان مسلم لیگ ن- سجاد حسین
پاکستان پیپلز پارٹی- میرزہ حسین
رجسٹرڈ ووٹرز- 14,001
اس حلقے میں 26 امیدوار مد مقابل ہیں جو کسی بھی حلقے میں سب سے زیادہ امیدوار ہیں۔ اس حلقے میں پاکستان تحریک انصاف کی وہی صورتحال ہے جوکہ حلقہ تین میں ہے۔ اس حلقے سے ضلع نگر کے صدر جاوید علی منوا پارٹی ٹکٹ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب تحریک انصاف کی جانب سے انھیں ٹکٹ نہیں دیا گیا توانھوں نے بھی آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کو فیصلہ کر لیا۔
لیکن دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری اس حلقے سے پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنا چاہتے تھے مگر پارٹی کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے احتجاجاً آزاد حیثیت سے میدان میں اتر رہے ہیں۔ اور اس حلقے میں چونکہ امیدواروں کی تعداد بہت زیادہ ہے تو یہاں کوئی اپ سیٹ بھی ہو سکتا ہے ۔ یعنی چانسز ہیں کہ کسی بڑی جماعت کے امیدوار کی بجائے یہاں سے کوئی آزاد امیدوار کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے اس حلقے میں مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔ کیونکہ اس حلقے میں یہ مذہبی جماعت کافی مضبوط ہے یہاں سے پچھلے الیکشن میں مجلس کے حاجی رضوان جیت چکے ہیں۔

GBA 6
ہنزہ۔
پاکستان تحریک انصاف۔ کرنل ریٹائرڈ عبید اللہ بیگ
پاکستان مسلم لیگ ن- ریحان شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی- ظہور کریم
رجسٹرڈ ووٹرز- 43,603
اس حلقے سے سیٹ پی ٹی آئی کے کرنل عبید اللہ نکال سکتے ہیں۔ لیکن یہ حلقہبھی پی ٹی آئی کی اندرونی لڑائیوں کا شکار ہے۔

GBA 7
سکردو ون۔
پاکستان تحریک انصاف۔ راجا محمد زکریا خان مقپون
پاکستان مسلم لیگ ن- محمد اکبر تابان
پاکستان پیپلز پارٹی- سید مہدی شاہ
رجسٹرڈ ووٹرز- 17,127
یہاں سے پیپلز پارٹی کے سید مہدی شاہ کو ہرانا کافی مشکل ہے۔

GBA 8
سکردو ٹو۔
پاکستان تحریک انصاف۔ ایڈجسٹمنٹ کی ہوئی ہے
پاکستان مسلم لیگ ن- محمد سعید
پاکستان پیپلز پارٹی- سید محمد علی شاہ
رجسٹرڈ ووٹرز- 39,567
اس حلقہ میں مسلم لیگ ن نے جوڑ توڑ کرکے محمد سعید کو ٹکٹ جاری کیا ہے جو اس سے پہلے مجلس وحدت مسلمین کے کارکن تھے اور ایم ڈبلیو ایم کے ٹکٹ کے خواہشمند تھے۔ لیکن ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے انھوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیارکی اور اب شیر کے نشان پر الیکشن لڑرہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے اس حلقے میں مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے کیونکہ یہ حلقہ ایم ڈبلیو ایم کا ہوم گراونڈ ہے۔ اور پی ٹی آئی جانتی ہے کہ وہاں ایم ڈبلیو ایم کو ہی کامیابی ملے گی اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

GBA 9
سکردو تھری۔
پاکستان تحریک انصاف۔ حاجی فدا محمد ناشاد
پاکستان مسلم لیگ ن-
پاکستان پیپلز پارٹی- وزیر وقار علی
رجسٹرڈ ووٹرز- 25,562
اس حلقے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے صرف 4 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ اس حلقے میں کوئی آزاد امیدوار حصہ نہیں لے رہا۔ گزشتہ انتخابات میں فدا محمد ناشاد اس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے لیکن اس وقت وہ ن لیگ میں تھے لیکن اب ان کے پارٹی چھوڑنے کی وجہ سے ن لیگ کی پوزیشن اس حلقے میں کافی کمزور ہو گئی ہے۔

GBA 10
سکردو فور۔
پاکستان تحریک انصاف۔ وزیر حسن
پاکستان مسلم لیگ ن- غلام عباس
پاکستان پیپلز پارٹی- محمد وزیر خان
رجسٹرڈ ووٹرز- 26,839
اس حلقے میں پی ٹی آئی کے وزیر حسن کی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔

GBA 11
کھرمنگ۔
پاکستان تحریک انصاف۔ سید امجد علی زیدی
پاکستان مسلم لیگ ن- شبیر حسین
پاکستان پیپلز پارٹی- نیاز علی
رجسٹرڈ ووٹرز- 26,869
اس حلقے سے گزشتہ انتخاب ن لیگ کے امیدوار اقبال حسن نے جیتا تھا اور وہ رکن اسمبلی رہے ہیں لیکن ن لیگ نے اس بار ان کو ٹکٹ نہیں دیا جس کی وجہ سے وہ اب آزاد امیدوار کی حیثییت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ لیکن یہاں پی ٹی آئی کے امجد زیدی کی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔

GBA 12
شگر۔
پاکستان تحریک انصاف۔ راجا محمد اعظم خان
پاکستان مسلم لیگ ن- محمد طاہر شگری
پاکستان پیپلز پارٹی- عمران ندیم
رجسٹرڈ ووٹرز- 36,183
سکردو حلقہ نمبر نو کے بعد اس حلقے سے بھی صرف 4 امیدوار ہی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس حلقے میں بھی کوئی آزاد امیدوار حصہ نہیں لے رہا۔
اس حلقے میں ایم ڈبلیو ایم نے تحریک انصاف کی حمایت میں اپنا امیدوار دستبردار کرا لیا۔ جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کی پوزیشن بہتر ہو گئی ہے لیکن یہاں مقابلہ ہمیشہ کافی سخت ہوتا ہے۔

GBA 13
استور- ون۔
پاکستان تحریک انصاف۔ محمد خالد خورشید خان
پاکستان مسلم لیگ ن- رانا فرمان علی
پاکستان پیپلز پارٹی- عبد الحمید خان
رجسٹرڈ ووٹرز- 33,378
اس حلقے میں پی ٹی آئی کے خالد خورشید مضبوط تر امیدوار ہیں اور اگلے حکومتی سیٹ اپ میں اہم عہدے کے دعوے دار اور حق دار۔

GBA 14
استور- ٹو۔
پاکستان تحریک انصاف۔ شمس الحق لون
پاکستان مسلم لیگ ن- رانا محمد فاروق
پاکستان پیپلز پارٹی- ڈاکٹر مظفر علی
رجسٹرڈ ووٹرز- 29,023
اس حلقے میں پی ٹی آئی کے اپنے دیگر امیدواروں کی حمایت کے بعد، شمس لون کی لہر بنتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب پی پی پی پی، مسلم لیگ نون کے پاس بھی تگڑے امیدوار نہیں۔ اس لئے یہاں پی ٹی آئی کے لئے کامیابی حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔

GBA 15
دیامر- ون۔
پاکستان تحریک انصاف۔ نوشاد عالم
پاکستان مسلم لیگ ن- عبدالواجد
پاکستان پیپلز پارٹی- بشیر احمد خان
رجسٹرڈ ووٹرز- 35,185
اس حلقے میں پی ٹی آئی کو ابھی خاصی محنت درکار ہے لیکن یہ بھی ہے کہ نوشاد عالم اپنا اچھا خاصا ووٹ بنک رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔

GBA 16
دیامر- ٹو۔
پاکستان تحریک انصاف۔ عتیق اللہ
پاکستان مسلم لیگ ن- محمد انور
پاکستان پیپلز پارٹی- حاجی دلبر خان
رجسٹرڈ ووٹرز- 35,405
اس حلقے میں چلاس میں ٹکٹ سے محروم عبد العزیز کی مخالفت کے با وجود پی ٹی آئی کے عتیق اللہ کی پوزیشن کافی بہتر ہے۔
مسلم لیگ ن نے اپنے ممبر وزیر جانباز خان کے انتقال کے بعد ان کے بھتیجے انورکو ٹکٹ دیا ہے لیکن کیونکہ یہ اس کا پہلا الیکشن ہے تو اس پر کوئی خاص تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔

GBA 17
دیامر- تھری۔
پاکستان تحریک انصاف۔ حاجی حیدر خان
پاکستان مسلم لیگ ن- صدر عالم
پاکستان پیپلز پارٹی- عبد الغفار خان
رجسٹرڈ ووٹرز- 29,955
اس حلقے سے گزشتہ انتخاب میں حاجی حیدر خان نے ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن اب وہ ن لیگ کو چھوڑ کر حکومتی جماعت پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے ن لیگ کی پوزیشن اس حلقے میں کافی کمزور ہے۔

GBA 18
دیامر- فور۔
پاکستان تحریک انصاف۔ حاجی گلبر خان
پاکستان مسلم لیگ ن-
پاکستان پیپلز پارٹی- سعدیہ دانش
رجسٹرڈ ووٹرز- 18,907
مسلم لیگ نون نے ابھی تک یہاں اپنے امیدوارعمران وکیل کو نہیں اتارا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے سعدیہ دانش بس خانہ پری ہی کریں گی۔ اس لئے یہاں جے یو آئی سے آکر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے حاجی گلبر خان ہی قابل ذکر امیدوار ہیں۔

GBA 19
غذر- ون۔
پاکستان تحریک انصاف۔ ظفر محمد شادم خیل
پاکستان مسلم لیگ ن- عاطف سلمان
پاکستان پیپلز پارٹی- سید جلال علی شاہ
رجسٹرڈ ووٹرز- 37,808
اس حلقے میں ظفر شادم خیل کو نواز ناجی اور پیر کرم علی شاہ کے فرزند پی پی پی کے جلال علی شاہ جیسے تگڑے امیدواروں سے نپٹنا ہے۔ جو کہ ان کے لئے خاصا مشکل کام ہے۔ یہ سیٹ بہر حال پیپلز پارٹی کو ہی ملے گی۔

GBA 20
غذر- ٹو۔
پاکستان تحریک انصاف۔ نذیر احمد
پاکستان مسلم لیگ ن- محمد نذرخان
پاکستان پیپلز پارٹی- علی مدد شیر
رجسٹرڈ ووٹرز- 42,533
نگر2 کے بعد اس حلقہ میں بھی 26 امیدوار مد مقابل ہیں۔ اس حلقے سے گزشتہ انتخاب میں فدا خان ن لیگ کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے لیکن اب کی بار پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے پر وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔

GBA 21
غذر- تھری۔
پاکستان تحریک انصاف۔ راجا جہانزیب خان
پاکستان مسلم لیگ ن- غلام علی
پاکستان پیپلز پارٹی- محمد ایوب شاہ
رجسٹرڈ ووٹرز- 34,973
پی ٹی آئی کے جانے پہچانے امیدوار راجا جہانزیب کو اس بار سخت مقابلے اور مشکلات کا سامنا ہے اس حلقے میں انہیں اپنوں کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ مسلم لیگ نون کے بڑے سیاست دان غلام محمد اپنی پوزیشن بنا رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے ایوب شاہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

GBA 22
گانچھے – ون۔
پاکستان تحریک انصاف۔ محمد ابراہیم ثنائی
پاکستان مسلم لیگ ن- رضا الحق
پاکستان پیپلز پارٹی- محمد جعفر
رجسٹرڈ ووٹرز- 29,104
اس حلقے سے گزشتہ انتخاب محمد ابراہیم ثنائی ن لیگ کے ٹکٹ پر جیتے تھے لیکن اب وہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ اور ان کی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔

GBA 23
گانچھے – ٹو۔
پاکستان تحریک انصاف۔ آمنہ بی بی
پاکستان مسلم لیگ ن- غلام حسین
پاکستان پیپلز پارٹی- غلام علی حیدری
رجسٹرڈ ووٹرز- 27,522
یہ حلقہ کافی
male dominent
ہے اس لئے اگر کوئی آزاد امیدوار آمنہ بی بی کے ساتھ ملے یا پی ٹی آئی نے اس حلقے پر محنت کی تب ہی یہ سیٹ نکلسکتی ہے ورنہ آمنہ بی بی کی جیت کافی مشکل ہے۔

GBA 24
گانچھے – تھری۔
پاکستان تحریک انصاف۔ سید شمس الدین
پاکستان مسلم لیگ ن- منظور حسین
پاکستان پیپلز پارٹی- محمد اسماعیل
رجسٹرڈ ووٹرز- 20,187
اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد اسماعیل کو ہرانا کافی مشکل ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اگر صرف بلتستان کی بات کی جائے تو یہ نو سیٹیں بنتی ہیں جس پر ہر ایک جماعت زور لگا رہی ہے ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنی کمپئین بھی وہاں سے ہی شروع کی تھی۔2009 میں پیپلز پارٹی نے بلتستان کے 9 میں سے 7 سیٹیں حاص کی تھیں۔ 2015 میں بلتستان کے 9 میں سے 6 حلقوں پرن لیگ جیتی تھی۔ اب چونکہ پی ٹی آئی کا گلگت میں پہلا الیکشن ہے تو آج کے دن تک میرا خیال یہ ہے کہ بلتستان سے پی ٹی آئی 5، پیپلز پارٹی 3 اور ایم ڈبلیو ایم ایم ایک سیٹ حاصل کر سکتی ہے ن لیگ کے اراکین کے پارٹی چھوڑ جانے کی وجہ سے ان کے لئے بلتستان میں سیٹ نکالنا کافی مشکل ہے۔ ویسے بھی ان کا پاک فوج کے خلاف بیانیہ انھیں اس الیکشن میں کافی نقصان پہنچا رہا ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے لئے ویسے تو 13سیٹیں ایسی ہیں جو کہ وہ نکال سکتے ہیں، لیکن اگر وہ سات یا آٹھ سیٹ بھی یہاں سے نکال لیں تو وہ اس پوزیشن میں آجائیں گے کہ آئی ٹی پی، جے یو آئی اور چند آزاد امیدوار ساتھ ملا کر حکومت بنا سکتے ہیں۔اور چانسز یہ بھی ہیں کہ مسلم لیگ ن جو چند سیٹیں یہاں سے حاصل کر سکی تو وہ بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہی مل جائے گی کیونکہ پی ڈی ایم میں ویسے ہی یہ جماعتیں ساتھ ہیں۔پی ٹی آئی کو وہاں سے کافی سیٹیں حاصل ہو سکتی ہیں لیکن پھر بھی ان کے لئے majority حاصل کرکے گورنمنٹ بنانا زیادہ آسان نہیں ہوگا۔ اس لئے ابھی بھی وقت ہے اگر پی ٹی آئی پارٹی کے اندر کی نا اتفاقی اور لڑائیاں ختم کر لے اور اپنی کمپئین پر توجہ دے تو پوزیشن بہتر ہو سکتی ہتے کیونکہ بہر حال ابھی تک گلگت بلتستان میں ٹرینڈ یہی رہا ہے کہ حکومتی جماعت ہی وہاں پر کامیابی حاصل کرتی ہے۔

Leave a reply