جنوبی پنجاب صوبہ، گیلانی بول پڑے، تحریر: نوید شیخ

جنوبی پنجاب صوبہ، گیلانی بول پڑے، تحریر: نوید شیخ

اکثر پاکستانی سیاست میں بھونچال اس لیے بھی برپا کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی توجہ ان مسائل سے ہٹائی جا سکے جن میں وہ گھرے ہوئے ہیں۔ ۔ سوال یہ ہے کہ آج کل صبح و شام وفاقی وزراء نوازشریف کا ورد کیوں کر رہے ہیں۔۔ کبھی انہیں واپس لانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔۔ کبھی ان کی میڈیکل رپورٹ منگوائی جاتی ہے۔ ۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے ان کے خلاف پارٹی میں بغاوت ہو گئی ہے۔۔ کبھی حمزہ اور مریم کی لڑائی کی خبریں پھیلائی جاتی ہیں ۔ ۔ کبھی شہباز شریف کو ان کے مقابل کھڑا کیا جاتا ہے اور کبھی ڈیل کی کوششوں کا تذکرہ کر کے مظلوم بننے کی کہانی گھڑی جاتی ہے۔۔ پھر کبھی زرداری تو کبھی بلاول کی طرف توپوں کا رخ کردیا جاتا ہے ۔ ۔ اور اب حکومت نے ایک نیا ایشو پکڑا لیا جس کا نام ہے جنوبی پنجاب صوبہ ۔۔۔
۔ یہ سب باتیں عوام کو سیاسی کھیل تماشوں میں الجھانے کی ایک کوشش نظر آتی ہے، تاکہ مہنگائی نے ان کا جو برا حال کر رکھا ہے اس سے ان کی توجہ ہٹائی جا سکے ۔

۔ دیکھا جائے تو جنوبی معاملے پر بھی تیلی ہمیشہ کی طرح پی ٹی آئی نے لگائی ۔ مگر اب اپوزیشن حکومت کو اس معاملے سے بھاگنے نہیں دے رہی ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے پی ٹی آئی کو اس ایشو پر گھیر لیا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ کیونکہ جو بیانات چیزیں پیپلزپارٹی اور ن لیگ جانب سے آئی ہیں اس کے بعد پی ٹی آئی کی نیت ہو تو پھر جنوبی پنجاب صوبہ بنانے سے اسکو کوئی نہ روک سکتا ۔ مگر یاد رکھیے گا یہ نہیں بنائیں گے یہ بس اس معاملے پر بھی سیاست ہی کھیلیں گے ۔

۔ یہاں یاد کروادوں کہ جنوبی پنجاب صوبہ پی ٹی آئی کے منشور میں شامل تھا ۔ یہ کارڈ استعمال کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے electablesکو گزشتہ جنرل الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا تھا ۔ کیونکہ عمران خان دعوی تھا کہ نوے دن میں صوبہ بنوا کر دیکھاوں گا ۔ ۔ مگر عملی طور پر پی ٹی آئی نے باقی چیزوں کی طرح اس پر بھی کچھ نہ کیا بس جنوبی پنجاب سکریٹریٹ بنا کر ایک نیا ڈرامہ رچا دیا گیا۔ جس کا مقصد صوبے کے قیام کو پس پشت ڈالنا دیکھائی دیتا ہے۔ وجوہات آگے چل کر تفصیل سے بتاتا ہوں ۔ پر اب جو ایک بار پھر جنرل الیکشن سے پہلے جنوبی پنجاب صوبہ کا شور مچایا جا رہا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں سیاست کرنے کے لئے اب علیحدہ صوبے کی بات کرنا انتہائی ناگزیر ہو چکا ہے جو سیاسی جماعت اس مطالبے کی حمایت نہیں کرے گی وہ کم از کم جنوبی پنجاب سے کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ۔ سینیٹ میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بجا طور پر اس بات کا کریڈٹ لیا ہے کہ ان کی حکومت میں پنجاب اسمبلی سے بھی علیحدہ صوبے کی قرارداد منظور ہوئی، جو ایک آئینی تقاضا تھی اور قومی اسمبلی نیز سینٹ میں بھی یہ قرارداد پیش کی گئی۔ اگر ان کے پاس دو تہائی اکثریت ہوتی تو پیپلزپارٹی علیحدہ صوبہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی۔ اس لیے انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو یاد دلایا ہے کہ انہوں نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اور سو دن کے اندر اس ضمن میں عملی اقدامات کی یقین دہانی کرائی تھی۔ مگر حکومت میں آکر وہ سب کچھ بھول گئے۔۔ اس بس کے باوجود پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر کھلا دل کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ اب بھی اگر عمران خان اس حوالے سے کچھ کرنا چاہیں تو اپوزیشن ان کا ساتھ دے گی۔

۔ پھر اس سلسلہ میں مسلم لیگ ن کے سینیٹر رانا محمود الحسن نے سینیٹ میں بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی پنجاب صوبے کا وعدہ سب نے کیا ہے، اسے پورا کیا جائے۔ رانا محمود الحسن کے بقول جتنا پانی اسلام آباد کے پھولوں کو ملتا ہے، اگر اتنا پانی جنوبی پنجاب کو مل جائے تو ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ پنجاب اور بلوچستان صوبہ بن سکتا ہے تو سرائیکستان کیوں نہیں بن سکتا۔ یہ ہمارا حق ہے۔ سینیٹ کے قائد حزبِ اختلاف سید یوسف رضا گیلانی نے اس بل کو ایک اہم ایشو قرار دیا ۔ ۔ اس بل پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی سینیٹ میں اظہار خیال کیا اور کہا کہ جنوبی پنجاب کا بل ہماری خواہشات کے عین مطابق ہے۔ ہم نے جنوبی پنجاب کے لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ صوبے کی تشکیل کے لیے ہمیں دوتہائی اکثریت چاہیے ، اس بل پر مل کر آگے بڑھیں اور اپوزیشن اس پر ہمارا ساتھ دے کیونکہ ہمارے پاس دوتہائی اکثریت نہیں ہے۔ ہمیں پنجاب اسمبلی سے بھی رائے لینا ہو گی، سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم سیکرٹریٹ نہیں مانگ رہے صوبہ بن جائے گا تو دارالحکومت ہم خود بنائیں گے۔ ۔ شاہ محمود قریشی ہر بار ملتان آکر یہ دعویٰ ضرور کرتے ہیں کہ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کو علیحدہ سکریٹریٹ دیا ہے اور علیحدہ صوبہ بھی وہی بنائے گی۔ پر مجھے نہیں لگتا کہ شاہ محمود قریشی کبھی عمران خان کو یہ کہنے کی جرأت نہیں کریں گے کہ آپ نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی بات کی تھی۔ اگر یہ وعدہ پورا نہ ہوا تو آئندہ انتخابات میں جنوبی پنجاب کی حد تک تحریک انصاف کا جیتنا نا ممکن ہو جائے گا۔ ابھی تو پی ٹی آئی صرف اسی بات پر خوش ہے کہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ سیکرٹریٹ مل گیا ہے اور افسروں کی فوج تعینات کر دی گئی ہے۔

۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سینٹ میں خطاب کے ذریعے یوسف رضا گیلانی نے اپنے علاقے کی اس بار بھرپور نمائندگی کی ہے اس سے سرائیکی علاقے کی قوم پرست جماعتیں بھی ان کی پشت پر آکھڑی ہوئی ہیں کیونکہ وہ بھی علیحدہ سکریٹریٹ کے فیصلے کو مسترد کر چکی ہیں اور خود مختار صوبہ چاہتی ہیں۔۔ کیونکہ اس بار بھی خدشہ یہ ہی ہے کہ پی ٹی آئی علیحدہ صوبے کے مطالبے کو صرف ایک سیاسی نعرہ کے طور پر زندہ رکھنا چاہتی ہے ۔ تحریک انصاف کی حکمتِ عملی غالباً یہ ہے انتخابی مہم میں اس وعدے کے ساتھ جایا جائے کہ علیحدہ سکریٹریٹ بھی ہم نے بنایا اور اب علیحدہ صوبہ بھی ہم ہی بنائیں گے۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ صوبے کی بجائے سکریٹریٹ بنا کر تحریک انصاف نے خود مختار صوبے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔ یہ تاثر دیا گیا ہے کہ یہ مسئلہ صرف انتظامی نوعیت کا تھا، جسے خود مختار سکریٹریٹ بنا کر حل کر دیا گیا ہے۔ جبکہ یہ مسئلہ انتظامی نہیں بلکہ ثقافتی، سیاسی اور تاریخی نوعیت کا ہے۔ یوں جب تک علیحدہ صوبہ نہیں بنتا، دکھاوے کے اقدامات سے بات نہیں بنے گی۔ جنوبی پنجاب کے لئے علیحدہ اسمبلی، علیحدہ بجٹ، علیحدہ ہائیکورٹ اور سینٹ میں علیحدہ نمائندگی ہی مسئلے کا حل ہے۔ یہ سب کچھ علیحدہ سیکرٹریٹ بنانے سے نہیں مل سکتا۔۔ کیونکہ جب صوبے کا وزیر اعلیٰ ایک، اسمبلی ایک، چیف سکریٹری اور آئی جی ایک، نیز ہائیکورٹ بھی ایک ہے تو جنوبی پنجاب کے چھ کروڑ سے زائد عوام کو نمائندگی کا حق کیسے مل سکتا ہے۔

۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت نے صوبہ جنوبی پنجاب پر آج تک سنجیدہ سیاست نہیں کی اور نہ ہی اس معاملہ میں کبھی آئینی تقاضے کے تحت عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ محض جنوبی پنجاب کی پسماندگی اور محرومیوں کا رونا رو کر ہر جماعت ایک دوسرے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی کوشش کرتی رہی ہے جبکہ اس سیاست نے سندھ اور سرحد میں بھی نئے صوبے کی سیاست کو ہوا دی ہے ۔ سندھ میں ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی کو صوبہ جناح پور بنانے کے لیے آواز اٹھائی گئی جس کی پیپلز پارٹی کی جانب سے سخت مخالفت ہوئی اور سندھی قوم پرستوں نے اعلان کر دیا کہ سندھ میں سے نیا صوبہ ہماری لاشوں کو اٹھا کر ہی نکالا جا سکتا۔ علاقائی بنیادوں پر ہونے والی اسی سیاست نے صوبہ سرحد میں بھی سیاسی طوفان اٹھایا جہاں صوبہ ہزارہ کی تحریک شروع ہوئی اور اسے اے این پی کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

۔ بدقسمتی سے اس وقت ہماری سیاست تعمیری سے زیادہ مفاداتی سیاست بن گئی ہے۔ ۔ ہمارا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ جنوبی پنجاب یا کسی دوسرے صوبے پر سیاست کرنے والوں کو جب آئینی ترمیم کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل ہوتی ہے تو وہ نئے صوبے کا نام لینا بھی بھول جاتے ہیں مگر اس ایشو پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ۔ پھر اگر پی ٹی آئی اور عمران خان جنوبی پنجاب کے لیے مخلص ہوتے تو یہ کارنامہ بھی بالکل ویسے ہی سرانجام دے دیا جاتا جیسے منی بجٹ اور دیگر معاملوں میں حکومت نے اپنی استادی دیکھائی ہے ۔ ۔ ویسے پی ٹی آئی نے جو جنوبی پنجاب کے لیے الگ سیکرٹریٹ تشکیل دے کر حل نکالا ہے یہ محض سیاسی سٹنٹ ہی ثابت ہوا ہے کیونکہ نیا سیکرٹریٹ جنوبی پنجاب کے لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے میں قطعاً معاون نہیں بن سکا۔

Comments are closed.