گودی میڈیا کی خونی اور جھوٹی صحافت، عالمی میڈیا نے پرخچے اُڑا دیئے!
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ فوجی کشیدگی کے دوران بھارتی میڈیا جسے "گودی میڈیا” کہا جاتا ہے نے جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈے کی ایسی مہم چلائی کہ عالمی اداروں اور فیکٹ چیکرز کو اسے بے نقاب کرنا پڑا۔ دی نیویارک ٹائمز اور دی نیوز انٹرنیشنل کی رپورٹس کی روشنی میں یہ واضح ہوا کہ بھارتی میڈیا نے غیر مصدقہ دعوؤں کو قومیت پرستی کے جوش میں نشر کیا، جس سے نہ صرف صحافتی معیار کو نقصان پہنچا بلکہ خطے میں تناؤ بھی بڑھا۔

بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ بھارتی فورسز نے پاکستان کے جوہری اڈے پر حملہ کیا، دو پاکستانی جنگی طیاروں کو مار گرایاہے اور کراچی کی بندرگاہ جو پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے کو تباہ کردیا۔ یہ رپورٹس اتنی تفصیلی تھیں کہ عام ناظرین ان پر یقین کرنے پر مجبور ہوگئے۔ تاہم دی نیویارک ٹائمز نے واضح کیا کہ "ان دعوؤں میں سے کوئی بھی سچ نہیں تھا۔” اسی طرح دی نیوز انٹرنیشنل نے کراچی پر بھارتی بحریہ کے مبینہ حملے کی کہانی کو جھوٹ قرار دیا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔ بھارتی میڈیا کا یہ رویہ کوئی حادثاتی غلطی نہیں بلکہ ایک دانستہ کوشش تھی جو قومیت پرستی کے نام پر جھوٹ کو فروغ دے رہی تھی۔

یہ جھوٹی خبریں سوشل میڈیا سے شروع ہوکر مین اسٹریم میڈیا تک پہنچیں، جہاں کبھی معتبر سمجھے جانے والے اداروں نے بھی انہیں بغیر تصدیق کے نشر کیا۔ امریکن یونیورسٹی کی پروفیسر سمیترا بدریناتھن نے کہا کہ "اس بار جو بات منفرد تھی وہ یہ کہ معتبر صحافیوں اور بڑے میڈیا ہاؤسز نے کھلم کھلا من گھڑت کہانیاں چلائیں۔” ان کا کہنا تھا کہ جب قابل اعتماد ذرائع ہی جھوٹ پھیلانے لگیں تو یہ ایک سنگین بحران ہے۔ سوشل میڈیا پر جھوٹ کی بھرمار پہلے بھی دیکھی گئی لیکن مین اسٹریم میڈیا کا اس طرح پروپیگنڈے کا آلہ بننا بھارتی صحافت کے زوال کی واضح علامت ہے۔

بھارت میں صحافتی آزادی کا گراف 2014 سے مسلسل نیچے جا رہا ہے، جب سے نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا۔ دی نیوز انٹرنیشنل کے مطابق بہت سے میڈیا ہاؤسز پر حکومتی ساکھ کو نقصان پہنچانے والی خبروں کو دبانے کا دباؤ ہے جبکہ بڑے ٹی وی چینلز حکومتی پالیسیوں کے ترجمان بن گئے ہیں۔ اس ماحول میں جنگ کے دوران قومیت پرستی کو ہوا دینا اور جھوٹی خبروں کو نشر کرنا معمول بن گیا۔ کارنیگی میلن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیئل سلورمین نے کہا کہ "غلط معلومات کو جان بوجھ کر پھیلایا جاتا ہے تاکہ جذبات ابھریں اور تنازعہ بڑھے۔” بھارت اور پاکستان کی تاریخی دشمنی نے اس جھوٹ کو پھیلانے کے لیے زرخیز زمین فراہم کی۔

اس افراتفری میں بھارت کے معروف صحافی راجدیپ سردیسائی جو انڈیا ٹوڈے کے اینکر ہیں، کو اپنے چینل پر پاکستانی طیاروں کے مار گرائے جانے کی جھوٹی خبر نشر کرنے پر معافی مانگنی پڑی۔ دی نیویارک ٹائمز اور دی نیوز انٹرنیشنل دونوں نے اسے نمایاں کیا۔ سردیسائی نے اپنے یوٹیوب ویلاگ میں کہا کہ یہ جھوٹ "قومی مفاد کے نام پر دائیں بازو کی پروپیگنڈہ مشینری” کا حصہ تھا۔ ان کی معافی اس بات کی گواہی ہے کہ 24 گھنٹے کے نیوز سائیکل میں کس طرح میڈیا دباؤ کا شکار ہوکر جھوٹ کا آلہ بن جاتا ہے۔

بھارت کی فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ آلٹ نیوز نے اس صورتحال میں روشنی کی کرن ثابت ہوئی۔ اس نے آج تک اور نیوز18 جیسے بڑے چینلز کی جھوٹی خبروں کو بے نقاب کیا، جن میں کراچی پر حملے کی من گھڑت کہانی بھی شامل تھی۔ دی نیویارک ٹائمز کے مطابق آلٹ نیوز کے بانی پراتیک سنہا نے کہا کہ "بھارت کا معلوماتی ماحول تباہ ہوچکا ہے۔” بدقسمتی سے فیکٹ چیکنگ کی یہ کوششیں مہنگی ثابت ہو رہی ہیں۔ آلٹ نیوز کو ہتک عزت کے مقدمات اور رپورٹرز کو ہراسانی کا سامنا ہے جو سچائی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

سوشل میڈیا نے اس جھوٹ کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دی نیوز انٹرنیشنل نے بتایا کہ کراچی پر حملے کی جھوٹی خبروں کے ساتھ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر "کراچی” اور "کراچی پورٹ” ٹرینڈ کر رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر دھماکوں سے سیاہ بادل کی تصاویر گردش کر رہی تھیں جو بعد میں غزہ کی ثابت ہوئیں۔ بھارتی بحریہ نے تصادم کے بعد واضح کیا کہ اس نے کراچی پر کوئی حملہ نہیں کیا۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کا گٹھ جوڑ کس طرح جھوٹ کو حقیقت کا رنگ دیتا ہے۔

رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے مطابق بھارت میں 200 ملین سے زیادہ گھرانوں کے پاس ٹیلی ویژن ہے اور 450 نجی ٹی وی چینلز خبریں نشر کرتے ہیں۔ اس طاقت کے ساتھ میڈیا کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے لیکن حالیہ واقعات نے اسے نظرانداز کیا۔ دی نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ "بھارتی صحافت جو کبھی اپنی جرات کے لیے جانی جاتی تھی، اب پروپیگنڈے کا آلہ بن رہی ہے۔” یہ زوال نہ صرف بھارت کے لیے بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی خطرہ ہے۔

گودی میڈیا کی خونی اور جھوٹی صحافت نے جہاں بھارت کے اندر سچائی کا گلا گھونٹا وہیں دنیا بھر کے عوام کو بھی جھوٹے بیانیے کے ذریعے گمراہ کیا۔ ایسے حالات میں گودی میڈیا کسی ایک ملک نہیں بلکہ عالمی امن کیلئے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ اگر یہ جھوٹ بے لگام رہا تو ایک دن یہ غلط معلومات جنگی تباہی کو جنم دے سکتی ہیں۔ اس سنگین صورتحال پر عالمی اداروں کو فوری نوٹس لینا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ، انٹرنیشنل پریس کونسل اور عالمی عدالت انصاف کو چاہیے کہ وہ گودی میڈیا کے جھوٹے پراپیگنڈے پر باقاعدہ تحقیقات کریں، ذمہ داروں کا تعین کریں اور ان پر بین الاقوامی قوانین کے تحت مقدمات چلائیں۔ کیونکہ اب وقت آ چکا ہے کہ خونی صحافت کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ دنیا سچائی، صحافتی آزادی اور امن کی طرف واپس لوٹ سکے۔

Shares: