پنجاب میں موجودہ حکومت کی جانب سے گڈ گورننس، میرٹ پر تقرریوں اور عوامی فلاح کے منصوبوں کا بارہا ذکر کیا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی قیادت میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں جو اصلاحات متعارف کروائی گئی ہیں، وہ بلاشبہ قابلِ تحسین ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں بہتری، تعلیمی اداروں کی بحالی اور عوامی سہولیات پر توجہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت عوامی مسائل کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ تبدیلی واقعی عام آدمی تک پہنچ رہی ہے؟ حکومتی پالیسی اور زمینی حقیقت کے درمیان جو خلا موجود ہے، وہ ضلعی انتظامیہ کے دفاتر میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔راولپنڈی سے لے کر پنجاب کے دیگر اضلاع تک عام شہری کی سب سے بڑی شکایت یہی ہے کہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر جیسے اعلیٰ افسران عوام سے براہِ راست ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ دفاتر میں وقت کی پابندی کاغذی حد تک تو موجود ہے، مگر عملی طور پر صورتحال مختلف ہے۔ عام شہری صبح سویرے اپنی درخواستیں لے کر دفاتر پہنچتا ہے، مگر افسران اکثر گیارہ بجے یا اس سے بھی بعد میں تشریف لاتے ہیں۔ اس کے بعد بھی پہلے چند مخصوص افراد، وی آئی پی یا ذاتی جان پہچان رکھنے والے افسر کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں، جبکہ عام آدمی انتظارگاہ میں بیٹھا رہتا ہے۔ جب دوپہر کا وقت آتا ہے تو عام شہری کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا ہے کہ صاحب میٹنگ میں ہیں بعد میں آئیے۔ یوں ایک دن نہیں بلکہ کئی دن گزر جاتے ہیں، مگر انصاف کی دہلیز تک رسائی نہیں ہو پاتی۔ یہ رویہ صرف ایک فرد کی بےعزتی نہیں بلکہ حکومت کی مجموعی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام وزیراعلیٰ کو روزانہ نہیں دیکھتے، وہ حکومت کو اپنے ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور اپنے ڈویژن کے کمشنر کے ذریعے پہچانتے ہیں۔ اگر یہی افسر عوام سے دور رہیں تو گڈ گورننس کا بیانیہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ مریم نواز نے سیاسی میدان میں متحرک کردار ادا کرتے ہوئے عوامی سطح پر جو مقبولیت حاصل کی ہے، وہ ضلعی سطح پر افسر شاہی کے رویے کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ اگر یہ روش برقرار رہی تو یہ نہ صرف انتظامی ناکامی ہو گی بلکہ سیاسی نقصان کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ضلعی افسران کو محض فائلوں کی نہیں بلکہ عوام کی خدمت کی ذمہ داری بھی یاد دلائے۔ وقت کی پابندی، کھلے دروازے اور وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہی وہ اقدامات ہیں جن سے گڈ گورننس محض نعرہ نہیں بلکہ حقیقت بن سکتی ہے۔ ورنہ خدشہ یہی ہے کہ عوام کے لیے کی جانے والی تمام اصلاحات، بند دروازوں کے پیچھے دم توڑتی رہیں گی۔








