ہم اور آپ ہر روز گوگل میپ کے استعمال سے راستے تلاش کرتے ہیں۔ اپنے موبائل فون میں گوگل میپ کی ایپ نکالی، لوکیشن آن کی اور ایک جگہ کا راستہ لکھا تو ترنت گوگل۔میپ نے اپکو راستہ بتا دیا۔ فرض کریں آپکو لاہور میں "شاہ دی کھوئی” سے لمز یونیورسٹی جانا ہے۔ تو آپ کسی لاہوری سے راستہ پوچھنے کی غلطی نہیں کریں گے کیونکہ وہ آپکو لمز کی بجائے مینارِ پاکستان پہنچا دے گا۔ تو آپ نے گوگل میپ پر لمز کا ایڈریس ڈالا اور گوگل نے آپکو راستہ بتا دیا اور ساتھ ہی ڈائریکشنز بھی کہ کونسی جگہ ِرنگ روڈ لینا ہے، کہاں سے رنگ روڈ سے اُترنا ہے، کہاں لالک چوک پر مڑنا یے وغیرہ وغیرہ۔

مگر گوگل آپکو یہ سب کیسے بتاتا ہے؟ اسکا جواب ہے جی پی ایس سسٹم کے ذریعے۔ اب یہ جی پی ایس کیا بلا ہے؟

جی پی ایس دراصل مخففففف(یہ لفظ پتہ نہیں کس نے نکالا تھا اتنے سارے ف ف ف والا) ہے گلوبل پوزیشننگ سسٹم کا۔ گلوبل پوزیشننگ سسٹم کیا ہے؟ بھلا ہو امریکیوں کا کہ انہیں نے آج سے 44 سال پہلے اس سسٹم کا آغاز کیا۔ یہ سسٹم دراصل خلا میں 31 سٹلائٹس (اس وقت فعال) کا نیٹ ورک ہے جو زمین سے تقریباً 20200 کلومیٹر اوپر خلا میں زمین کے گرد مدار میں گھوم رہے ہیں۔ اس سسٹم کے تحت پہلا سٹلائٹ 1978 میں بھیجا گیا جبکہ بعد میں تواتر سے مزید سٹلائٹس بھیجے گئے۔ ان میں سے جب کچھ سٹلائٹ پرانے یا ناکارہ ہو جاتے ہیں تو انکی جگہ نئے سٹلائٹس بھیجے جاتے ہیں۔ اب تک کل ملا کر 77 سٹلائٹس اس سسٹم کے لیے بھیجے جا چکے ہیں۔

خیر اب یہ موئے سٹلائٹ کرتے کیا ہے؟ ان سٹلائٹس میں ایٹامک کلاکس لگی ہوتی ہیں یعنی ایٹمی گھڑیاں جو نہایت ایکوریسی سے وقت کا حساب رکھتی ہیں۔ یہ سٹلائیٹس ہر لمحے اپنی جگہ اور مقامی وقت کو ریڈیائی لہروں کے ذریعے زمین پر ریڈیائی سگنلز کے ذریعے بھیجتے ہیں۔ سٹلائٹس سے بھیجے گئے سگنلز کو آپکے فون میں لگے جی پی ایس ریسور موصول کرتے ہیں جس سے زمین پر یہ اپنی جگہ معلوم کرتے ہیں جیسے کہ آپکا فون آپکو ان سگنلز سے ریاضی کے چند سادہ اُصولوں کو استعمال کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ آپ اس وقت لکشمی چوک پر ہیں جہاں آپ تو دیسی ککڑ کی کی دیسی گھی میں بنی کڑاہی رگڑ رہے ہیں مگر بیگم کو آپ نے بتایا ہے کہ آج گھر کام کی زیادتی کیوجہ سے گھر دیر سے آئیں گے۔

مگر آپکا فون آپکی یہ لوکیشن معلوم کیسے کرتا ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ ریڈیائی لہریں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ سو جب ہمارے فون کو سٹلائیٹ سے ایک سگنل موصول ہوتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے 8 بج کر 10 منٹ تو ہم یہ جان جاتے ہیں کہ سٹلائیٹ نے یہ سگنل 8 بج کر 10 منٹ پر بھیجا۔ اب ہمارا فون یہ بھی جانتا ہے کہ اس وقت فون پر کیا وقت ہوا ہے کیونکہ فون کے اندر بھی ایک گھڑی ہے۔ تو اگر آپکا فون یہ دیکھے کہ سگنل موصول ہوا ہے8 بج کر 10 منٹ اور 1 سیکنڈ بعد(ویسے ایک سکینڈ سے بھی کم وقت لگتا ہے مگر سمجھانے کے لیے) تو موبائل فون کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ سگنل پہنچنے میں محض ایک سیکنڈ لگا ہے۔ اب اسے روشنی کی رفتار سے ضرب دیں تو آپکو معلوم ہو جائے گا کہ سٹلائیٹ آپکے فون سے کتنی دور یے۔ یعنی آپ ایک سفئیر(آپ اسانی کے لیے دائرہ کہہ لیں) میں ہیں جسکا رداس اس فاصلے جتنا ہے جو آپکے فون نے معلوم کیا ہے۔ مگر آپ اس سفیئر میں آپ کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔ (وضاحت کے لیے تصویر دیکھیں).

مگر اس سے یہ معلوم نہیں ہو پائے گا کہ آپکی لوکیشن کہاں پر ہے۔ اسکے لیے اگر آپکے موبائل فون کو کم از کم تین سٹلائٹس سے بیک وقت سگنلز موصول ہوں(عموماً چار سے زیادہ بہتر لوکیشن ملتی ہے) تو اس سے تین سفیئرز بنیں گے جناک رداس ہر اُس فاصلے جتنا ہو گا جو آپکے فون نے معلوم کیا۔اسکا مطلب یہ کہ آپ ان تمام سفئیرزمیں بیک وقت ہونگے۔ عقل یہ کہتی ہے کہ آپ یاک کی صورت ان سب میں ہونگے یعنی ان تمام سفیئرز کے مشترکہ مقام یا سنگم پر۔ یوں آپ کا فون آپکو اپنی ایگزیکٹ لوکیش بتانے کے قابل ہو جائے گا۔اس اُصول کا ایک مشکل سا سائنسی نام بھی ہے جسے ٹرائلیٹریشن(Trilateration) کہتے ہیں۔

اب آپکی لوکیشن کو استعمال کر کے گوگل میپ پہلے سے بنائے گئے زمین کے نقشے میں آپکی لوکیشن کے حساب سے آپکی منزل مقصود تک کا راستہ آپکو بتائے گا۔ یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ سٹلائیٹ زمین سے اوپر خلا میں اتنہائی تیزی سے مدار میں گھوم رہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ وقت کسی شے کی رفتار کے مطابق بہتا ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ زیادہ گریویٹی کی وجہ سے وقت سست روی سے بہتا ہے۔ اور سٹلائیٹ چونکہ زمین سے دور ہوتے ہیں تو ان پر زمین کی گریویٹی کا اثر کم ہوتا ہے۔ لہذا سٹلائیٹس پر وقت تیزی سے گزرتا ہے بنسبت زمین کی سطح پر۔ یہ سب ہمیں آئن سٹائن کی ریلیٹویٹی تھیوری بتاتی ہے(جی سائنس میں تھیوری عام فہم والی تھیوری نہیں بلکہ ثابت شدہ تھیوری کو کہتے ہیں جسکا کوئی استعمال بھی ہو)۔ لہذا اگر ہم وقت کے سٹلائیٹ پر تیزی سے گزرنے کے عمل کو لوکیشن معلوم کرنے میں شامل نہیں کریں گے تو سچ میں آپ لمز کی بجائے مینارِ پاکستان پہنچ سکتے ہیں۔ اس میں قصور کسی بیچارے لاہوری کا نہیں ہوگا بلکہ آپکا ہو گا جو یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس کی تھیوری از جسٹ تھیوری۔

Shares: