پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے،آج عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔
باغی ٹی وی: سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت شروع ہو گئی۔ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے لیے 5 رکنی نیا بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر بھی نئے بینچ کا حصہ ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اگر انتخابات کے لیے حالات سازگار نہیں تو اس کی وجوہات بتائی جائیں۔جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ الیکشن کی تاریخ آئےتو ہی فیصلہ ہوگا کہ اس وقت انتخابات ہوسکتےہیں یا نہیں، پورا مہینہ ضائع کردیا کہ گورنر نے مشاورت کا کہا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ امن وامان کا معاملہ گورنرکا نہیں الیکشن کمیشن کا ہے، کیا امن وامان کا معاملہ انتخابات کی آئینی راہ میں آسکتا ہے؟-جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یہ درست نہیں کہ گورنر کا اقدام صدر کا اقدام ہوتا ہے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ اگر گورنر اسمبلیاں ختم نہیں کرتا تو پھر کیا صورتحال ہوگی، اس پر دلائل دوں گا،آرٹیکل 224 اے کے مطابق اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد صدر یا گورنر قائم مقام حکومت بنائیں گے-
صدراسلام آباد ہائیکورٹ بار نےکہا کہ آرٹیکل105/3میں تاریخ دینے کی بات کی گئی ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا حکومت تا ریخ دینے پر ایڈوائس نہیں کرسکتی؟ ،وکیل عابد زبیری نےکہا کہ ایسی کوئی قد غن نہیں لیکن حکومت نےایسی ایڈوائس نہیں کی، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پھر آج اس پر ایڈوائس کروالیں-
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ 90 دن کا وقت اسمبلی تحلیل ہونے کیساتھ شروع ہو جاتا ہے،جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟-صدراسلام آباد ہائیکورٹ بار نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کر سکتا ہے؟وکیل عابد زبیری نےکہا کہ الیکشن کی تاریخ دینےکا اختیار گورنر کا ہے وزیر اعلیٰ کا نہیں،گورنر وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے-جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نگران وزیر اعلیٰ اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس کرے تو کیا گورنر اس کا بھی پابند ہے؟،وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نگران حکومت صرف محدود اختیارات کے تحت کام کر سکتی ہے-چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کیا کہ آپ 105 آرٹیکل میں ترمیم کے بعد کی صورتحال بتا رہے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے مکالمے میں کہا کہ یہ معاملہ شاید صدر کا ہے وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ایسی صورتحال میں جب گورنر کردار ادا نہ کریں تو صدر کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے-
صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بارعابد زبیری نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں خاص طور پر جب عام انتخابات کی بات ہو تو پھر 90دن میں تاریخ دینا ضروری ہے، سیف اللہ کیس میں 12 ججز نے انتخاب کے عمل کو لازمی قرار دیا-جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا،انہوں نے استفسار کیا کہ کیا موجودہ یا سابقہ حکومت انتخاب کے اعلان کا کہے گی؟-چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا،صدر اسلام آباد ہائیکورٹ نے دلائل میں کہا کہ آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے 4 طریقے بتائے گئے ہیں-جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ نگران حکومت تو 7 روز بعد بنتی ہے،آئین کی مختلف شقوں کی ہم آہنگی ضروری ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے ریما رکس دیئے کہ پنجاب کے کیس میں وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا گورنر نے نہیں،عابد زبیری نے کہا کہ آئین آرٹیکل 112 کے مطابق عدم اعتماد ایڈوائس پر یا پھر 48 گھنٹے میں حکومت ختم ہوسکتی ہے-
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر حکومت کی تاریخ کے حوالے سے ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کرسکتا ہے؟ جس پر وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ پنجاب میں 22 جنوری کو نگران حکومت آئی تھی،میں عدالت کو بتانا چاہتا ہوں صدر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے-چیف جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیا کہ اگرصدر تاریخ دے سکتے ہیں تو پھر تاریخ دینے میں تاخیر کیوں ہوئی؟ ،عابد زبیری نے جواب میں کہا کہ صدر کے وکیل موجود ہیں وہ جواب دے سکتے ہیں-چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر صدر الیکشن کی تاریخ مشاورت سے دے سکتے ہیں توکیا گورنر بھی ایسا کرسکتے ہیں؟ ،مشاورت شاید الیکشن کمیشن کے ساتھ ہوگی-جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر گورنر الیکشن کرانے پر مشاورت کرتے ہیں توپھروہ وسائل سے متعلق بھی پوچھ سکتے ہیں ؟ وکیل عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن یا پھرگورنر انتخابات کی تاریخ ہر صورت میں دے سکتا ہے-جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آئین واضح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر گورنر تاریخ دے گا، گورنر کا تاریخ دینے کا اختیار دیگر معمول کے عوامل سے مختلف ہے -جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا نگران حکومت پر پابندی ہے کہ گورنر کو تاریخ تجویز کرنے کا نہیں کہہ سکتی؟کیا گورنر کو اب بھی سمری نہیں بھجوائی جا سکتی ؟ -صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے کہا کہ آئین کی منشاء کے مطابق 90 دن میں انتخابات ہونا ہے ، نگران کابینہ نے آج تک ایڈوائس نہیں دی تو اب کیا دے گی-
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نگران کابینہ کی ایڈوائس کے اختیار پر اٹارنی جنرل کو بھی سنیں گے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر جب بھی تاریخ دے گا تو 52 دن کا وقت اپنے ذہن میں ضرور رکھے گا، وکیل عابد زبیری نےدلائل میں کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت صدر الیکشن کمیشن سے مشاورت کر کے تاریخ دی سکتا ہے، الیکشن ایکٹ آئین کے آرٹیکل 222 کی تحت بنایا گیا ہے-چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ دینے میں تاخیر کیوں کی ؟شاید صورتحال واضح نہ ہونے پر تاخیر ہوئی ،گورنر الیکشن کی تاریخ کے لیے کس سے مشاورت کریں گے؟-جس پر وکیل نے بتایا کہ مشاورت الیکشن کمیشن سے ہی ہوسکتی ہے-جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر نے الیکشن کمیشن کو پہلی چٹھی لکھی کس آرٹیکل کے تحت بھیجی ؟ ہمیں علم ہے کہ صدر جو بھی عمل کریں گے وہ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے ساتھ کریں گے،صدر اپنے اختیارات کن قوانین کے تحت استعمال کرتے ہیں ، معاونت کریں-صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بارعابد زبیری نے کہا کہ آئین کے مطابق صدر نے کمیشن کو پہلی چٹھی لکھی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 57 کے مطابق انتخابات کی تاریخ دینا آئینی ذمہ داری ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر نے الیکشن کمیشن کو پہلی چٹھی کس آرٹیکل کے تحت بھیجی ؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کہہ رہا ہے کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی-عابد زبیری نے بتایاکہ تاریخ دینے کی بات کا ذکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 تین میں ہے،نوے روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے-جسٹس جمال مندوخیل نے بتایا کہ حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں،چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں حکومت آئینی ذمہ داری پوری نہیں کررہی؟اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں-عابد زبیری نے بتایا کہ دباؤ میں اگر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدر مملکت تاریخ دیں گے ،میرا موقف ہے کہ انتخاب کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے-جسٹس منصور علی شاہ ریمارکس دیئے کہ مشاورت میں وسائل اور حالات کا جائزہ لیا جائے گا،عدالت نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن انتخابات سے معذوری ظاہر کرے کیا پھر بھی گورنر تاریخ دینے کا پابند ہے؟،صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ گورنر ہر صورت تاریخ دینے کا پابند ہے-جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کے پاس تاریح نہ دینےکا کوئی اختیار نہیں،گورنر الیکشن کمیشن کے انتظامات مدنظر رکھ کر تاریخ دے گا،صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن عابد زبیری نے کہا کہ گورنر ہر صورت تاریخ دینے کا پابند ہے- جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائےگا،جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ صدر کے اختیارات براہ راست آئین نے نہیں بتائے،آئین میں اختیارات نہیں توپھر قانون کے تحت اقدام ہوگا،قانون بھی تو آئین کے تحت ہی ہوگا-جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے،صدر مملکت کس قانون کے تحت چھٹیاں لکھ رہے ہیں؟وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت نے مشاورت کیلئے خط لکھے ہیں-جسٹس منصور علی شاہ نے عابد زبیری سے مکالمے میں کہا کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں،اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر مان لیا قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کا پابند ہے،جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ نگران حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کریں گے صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں-
وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ نگران حکومت صرف محدود اختیارات کے تحت کام کر سکتی ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ اگرصدر تاریخ دے سکتے ہیں تو پھر تاریخ دینے میں تاخیر کیوں ہوئی؟ وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ آئین کی منشاء کے مطابق 90 دن میں انتخابات ہونا ہے ،الیکشن ایکٹ آئین کے آرٹیکل 222 کی تحت بنایا گیا ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن آزاد ادارہ ہے جس کی ذ مہ داری انتخابات کرانا ہے،گورنر پنجاب کا موقف ہے الیکشن کمیشن خود تاریخ دے،گورنر نے انٹرا کورٹ اپیل میں کہا کہ ان سے مشاورت کی ضرورت نہیں الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ وہ ازخود تاریخ کیسے دے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سمجھ نہیں آتا ہائیکورٹ میں 14 دن کا وقت کیوں مانگا گیا؟بطور اٹارنی جنرل آپ کیس شروع ہوتے ہی مکمل تیار تھے ایسے کونسے نکات تھے جس کی تیاری کے لیے وکلاء کو 14 دن درکار تھے؟ہائیکورٹ میں تو مقدمہ روزانہ کی بنیاد پر چلنا چاہیے تھا،
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صدر نے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 ون کا استعمال کیا ہے،اگر صدر کا اختیار نہیں تو سیکشن 57 ون غیر موثر ہے،اگر سیکشن 57 ون غیر موثر ہے تو قانون سے نکال دیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے حساب سے الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہے تو کسی سے مشاورت کی ضرورت نہیں،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین اور قانون کی منشا کو سمجھیں ، الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہو تو صدر اور گورنر کا کردار کہاں جائیگا ؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے،آپ کے مطابق الیکشن کمیشن کا کردار حتمی ہے،
واضح رہے کہ رہے کہ سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگر کیس میں 16فروری کو ازخودنوٹس کے لیے معاملہ چیف جسٹس کوبھیجا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔سپریم کورٹ نے از خود نوٹس میں تین سوالات اٹھائے ہیں، پہلا سوال اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ دوسرا سوال انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار کب اور کیسے استعمال کرنا ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی ذمہ داری کیا ہے؟
عدالت نے ازخود نوٹس سی سی پی او غلام ڈوگر ٹرانسفرکیس میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرنقوی کے نوٹ پرلیا ہے۔پہلے روزکی سماعت کے اہم ریمارکس میں عدالت نے اسمبلی کی تحلیل پر سوال اٹھا یا ،سپریم کورٹ میں سماعت کے آغاز پر عدالت نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے، پنجاب اورکے پی اسمبلیاں 14 اور17 جنوری کو تحلیل ہوئیں، آرٹیکل 224/2 کے تحت انتخابات اسمبلی کی تحلیل سے90 دنوں میں ہونے ہوتے ہیں، آرٹیکل 224 ایک ٹائم فریم دیتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، چاہتے ہیں انتخابات آئین کے مطابق ہوں عدالت نے 3 معاملات کو سننا ہے، صدرپاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 دنوں میں انتخابات ہوں گے، سیکشن 57 کے تحت صدر نے انتخابات کا اعلان کیا ہے، دیکھنا ہے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انتحابات کا مسئلہ وضاحت طلب ہے، ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ آپ سب کو سنیں گے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے سماعت طویل نہیں کریں گے، تیاری کریں کیس کی سماعت سوموار سے ہوگی۔
دورانِ سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، یہ ازخود نوٹس نہیں بنتا، ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکر کی درخواستیں ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے نوٹ پرلیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشن کمشنرکو بھی بلایا گیا جوکہ فریق نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ سوال دونوں اسمبلیوں کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں لیکن سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، ہم صرف آئین کی تشریح اور آئین کی عملداری کے لیے بیٹھے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ہم آج نوٹس جاری کریں گے، ہم اس معاملے کو طوالت نہیں دینا چاہتے اور نہ کوئی ابہام چھوڑنا چاہتے ہیں، ہم 2 بجے بیٹھے ہیں اور یہ ہمارے لیے غیرمعمولی ہے۔
سماعت میں اٹارنی جنرل نے وقت دینے کے لیے استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت اگلے ہفتے کریں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا بھی ازخود نوٹس لیا جائے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس ازخود نوٹس کیس پر اپنی آبزرویشن دینا چاہتا ہوں، یہ ازخودنوٹس کیس نہیں بنتا اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے سوموٹو پر کچھ تحفظات ہیں، ان کے تحفظات کو نوٹ کرلیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے اور وقت جلدی سے گزر رہا ہے،ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا، پنجاب اورکے پی کی اسمبلیوں کو تحلیل کیے جانے کے بعد 6 ہفتے گزرگئے، آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن کا انعقاد اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 دن میں ہونا چاہیے، بینچ کی 16 فروری کی سفارش پر سوموٹو نوٹس لیے جانے کی سفارش ہوئی۔عدالت نے کہا کہ الیکشن کے انعقاد کے معاملے پر صدر مملکت،گورنرپنجاب اورکے پی کو بھی سنا جائے گا۔جسٹس منصور نے سوال اٹھایا کہ کیا اسمبلیاں کسی کی ڈکٹیشن پر ختم ہوسکتی ہیں؟نمائندے 5 سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں تو کسی شخص کی ہدایت پر اسمبلی تحلیل کیسے ہوسکتی ہے۔بعد ازاں عدالت نے صدر مملکت اور گورنرکے پرنسپل سیکرٹری کو ان کے نظریے کی نمائندگی کے لیے نوٹس جاری کردیے جب کہ عدالت نے وائس چیئرمین پاکستان بار، چیئرمین سپریم کورٹ بار اور پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کونوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
دوسرے روز کی سماعت:
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل روسٹرم پرآ کر کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی کاپی نہیں ملی، تمام فریقین کو نوٹس نہیں مل سکےاس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی سماعت کا مقصد تمام متعلقہ حکام کو ازخودنوٹس کے متعلق اطلاع دینا تھا، فاروق ایچ نائیک اور تمام ایڈووکیٹ جنرلز یہاں ہیں۔
دورانِ سماعت پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر اعتراض اٹھادیا۔فاروق نائیک نے کہا کہ ججز سے کوئی ذاتی خلفشار نہیں، جو ہدایات ملیں وہ سامنے رکھ رہا ہوں، ہدایات ہیں کہ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی بینچ سے الگ ہوجائیں۔فاروق ایچ نائیک کے اعتراض پر چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے معاملے پر پیر کو آپ کو سنیں گے،فاروق ایچ نائیک نے پی ڈی ایم جماعتوں کا مشترکہ تحریری بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس اعجازالاحسن پہلے ہی غلام محمود ڈوگرکیس میں اس معاملے کو سن چکے، استدعا ہے دونوں جج صاحبان خود کو ازخود نوٹس سے الگ کرلیں۔پی ڈی ایم کے مشترکہ تحریری نوٹ میں کہا گیا ہےکہ فیئر ٹرائل کے حق کے تحت جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہرکو بینچ سے الگ ہوجانا چاہیے، دونوں ججز کے کہنے پر ازخود نوٹس لیا گیا اس لیے مذکورہ ججز بینچ سے الگ ہوجائیں، دونوں ججز (ن) لیگ اور جے یو آئی کے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں۔فاروق ایچ نائیک نے غلام محمود ڈوگر کیس میں دونوں ججز کا فیصلہ بھی پڑھ کر سنایا جب کہ جسٹس جمال کا گزشتہ روز کا نوٹ بھی پڑھا۔پی پی کے وکیل نے کہا کہ دونوں ججز نے ازخود نوٹس کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا، جسٹس مندوخیل کے نوٹ کے بعد جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہر خودکو بینچ سے الگ کردیں، ڈوگر کے سروس میٹر میں ایسا فیصلہ آنا تشویشناک ہے۔دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ مسٹر نائیک آپ کو نہیں لگتا کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ فل کورٹ کو سننا چاہیے؟اس پر فاروق ایچ نائیک نے انتخابات میں تاخیر کے ازخود نوٹس پر فل کورٹ بنانے کی استدعا کی اور کہا کہ انتخابات کا معاملہ عوامی ہے،اس پر فل کورٹ ہی ہونا چاہیے۔فاروق نائیک کے موقف پر چیف جسٹس نے کہا کہ 16 فروری کو فیصلہ آیا اور22 فروری کو ازخود نوٹس لیا گیا، ازخود نوٹس لینا چیف جسٹس کا دائرہ اختیارہے، آرٹیکل 184/3 کے ساتھ اسپیکرزکی درخواستیں بھی آج سماعت کے لیے مقرر ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اسپیکرزکی درخواست میں اٹھائےگئے قانونی سوالات بھی دیکھ رہی ہے، آج ہمارے دروازے پر آئین پاکستان نے دستک دی ہے اس لیے ازخود نوٹس لیا ہےجسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دییےکہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے، اپنی جماعتوں سے کہیں کہ یہ معاملہ عدالت کیوں سنے؟فاروق نائیک نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشنز نوٹ کرلی ہیں، اپنی جماعت سے اس معاملے پر ہدایت لوں گا۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیرتک ملتوی کردی۔
تیسرے روز کی سماعت:
پیر27 فروری کو پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لیے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹنے کے بعدعدالت عظمیٰ کا 5 رکنی بینچ کیس کی-
سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ،جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کیس سننے سے معذرت کرنے کے بعد پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے کیس کی سماعت کی- چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدربھی الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 13 اپریل کو انتخابات لازمی کرانے کے 90 دن ختم ہوں گے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ صدرکی جانب سے دی گئی تاریخ پر الیکشن ممکن نہیں، کسی صورت بھی 25 اپریل سے پہلے انتخابات نہیں ہو سکتے، 2008 میں بھی انتخابات کی تاریخ آگے گئی تھی، اگر آج بھی الیکشن کا اعلان کریں گے تو 90 دن کی حد پر عمل نہیں ہوسکتا۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وہ تو قومی سانحہ تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو انتخابات میں90 دن سے زائد تاخیر کا جواز دے، الیکشن کی تاریخ آئے گی توہی فیصلہ ہوگا کہ اس وقت انتخابات ہوسکتے ہیں یا نہیں، پورا مہینہ اس بات پر ضائع کردیا کہ گورنر نے مشاورت کا کہا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگرملک کے پاس انتخابات کرانے کے پیسے نہ ہوں توکیا ہوگا؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تعجب ہے ملک بھرمیں کرکٹ میچز کرانے کے پیسے ہیں لیکن انتخابات کیلئے نہیں،کیسے ہوسکتا ہے کہ اس بنیاد پر انتخابات نہ ہوں کہ پیسے نہیں ہیں؟
صوبائی اسپیکرز کے وکیل علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ کوئی آئینی عہدے دار بھی انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا، پنجاب میں 90 دن کا وقت 14 جنوری سے شروع ہوچکا ہے، عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے، انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے آئینی اختیارکے تحت خود تاریخ مقرر کی،الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ انتخابات کی تاریخ وہ نہیں دے سکتے، اصل معاملہ انتخابات کی تاریخ کا ہے جو دینے کیلئے کوئی تیار نہیں، الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں انتخابات کی تیاری کا بتا چکا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تیاری تو تب ہوگی جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوگا، تاریخ کی بات ہو رہی ہے، ابھی تو رشتہ ہونا ہے، کیا گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے؟کیا گورنر اپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے؟ میری رائے میں گورنرکی صوابدید یہ ہےکہ فیصلہ کرے اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کی یہ صوابدید نہیں ہے، گورنر اگر سمری منظور نہ کرے تو اسمبلی از خود تحلیل ہوجاتی ہے، گورنر سمری واپس بھیجے تو بھی 48 گھنٹے کا وقت جاری رہتا ہے، الیکشن کمیشن کو اسمبلی کی تحلیل سے 90 دن میں انتخابات کرانے ہی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو آئین کی کون سی شق انتخابات نہ کرانے کا اختیار دیتی ہے؟کیا الیکشن کمیشن کا انتخاباتی پروگرام 90 دن سے اوپر ہوسکتا ہے؟ اگر گورنر تاریخ نہ دے تو کیا الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کراسکتا ہے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر کے پی نے اسمبلی تحلیل کی، ان کو انتخابات کی تاریخ بھی دینا تھی، جب گورنرنے تاریخ نہیں دی تو صدرکے پاس ڈیفالٹ پاور موجود ہے، آئین خود کہتا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا گورنرکی ذمہ داری ہے، سال 1976 میں آئین خاموش تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے، اسمبلی نے ترمیم کرکے صدر اور گورنر کو تاریخ دینے کا اختیار دیا، بعض حالات میں الیکشن کی تاریخ دینا گورنر اور بعض میں صدر کی ذمہ داری ہے انتخابات کی تاریخ دینا آئینی ذمہ داری ہے، پنجاب کی حد تک صدر نے شاید تاریخ درست دی ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار دیا ہے، قانون کے مطابق صدر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرنا ہوتی ہے، یہ اہم معاملہ ہے کہ دیکھا جائے کہ صدرالیکشن کمیشن سے کیا مشاورت کرتے ہیں،گورنر بھی کس بنیاد اور مشاورت پر تاریخ مقرر کرسکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہر وقت انتخابات کیلئے تیار رہنا چاہیے، کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہوسکتی ہے،گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا، ایک مہینہ گزرگیا ہے تاحال کوئی اعلان نہیں کیا جاسکا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کوکاغذات نامزدگی سمیت تمام مراحل کیلئے 52 دن درکار ہیں، الیکشن کمیشن نے اسی بنیاد پر ہی گورنر کو تاریخیں تجویزکی تھیں چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی نہ کسی نکتے پر پہنچ رہے ہیں، جہاں آئین خاموش ہے وہاں قوانین موجود ہیں، منگل کو کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
تیسرے روز کی سماعت کے دوران اسپیکر پنجاب و کے پی اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے دلائل مکمل کرلیے فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ وہ مختصر دلائل دیں گے جس کے بعد عدالت نے مزید سماعت منگل 9 بجے تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ چار ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا ہے، عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہےگا، آئین کی تشریح کے لیے عدالت سماعت جاری رکھے گی، آئین کیا کہتا ہے اس کا دارو مدار تشریح پر ہےکل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کرکے ختم کرنےکی کوشش کریں گے، جب تک حکمنامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے،سٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکمنامے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا تھا، مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ وکیل علی ظفر دلائل کا آغاز کریں، آگاہ کریں عدالت یہ کیس سنے یا نہیں؟ آگاہ کیا جائے عدالت یہ مقدمہ سن سکتی ہے یا نہیں؟کل ہر صورت مقدمےکو مکمل کرنا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کے سوال پر علی ظفر نےکہا کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ گورنرکے اسمبلی تحلیل کرنے اور آئینی مدت پر ازخود اسمبلی تحلیل ہوجانےمیں فرق ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنا کس کا کام ہے؟علی ظفر نےکہا کہ انتخابات کی تاریخ کا کون ذمہ دار ہے اسی معاملے پر ازخود نوٹس لیا گیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہرکا کہنا تھا کہ آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو انتخابات میں90 دن کی تاخیرکو جسٹیفائی کرے، کیا کوئی انتخابات میں تاخیرکرسکتا ہے؟
وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ انتخابات میں کوئی تاخیر نہیں کرسکتا، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیےکہ گورنرپنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا، اس پر وکیل علی ظفر نےکہا کہ انتخابات کی تاریخ پر پنگ پانگ کھیلا جا رہا ہے،گورنریا الیکشن کمیشن کو عدالت انتخابات کی تاریخ مقررکرنےکا حکم دے سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں فریقین کے کہنے پر مقدمہ مؤخر ہوا ہے؟ وکیل اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اس لیے ہائی کورٹ سے مؤخرہوا۔کیل علی ظفر نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں جاری انٹراکورٹ اپیل میں کوئی حکم امتناع نہیں دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نےکہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے انتخابات کی تاریخ کا حکم دیا تھا، کیا کوئی توہین عدالت کی درخواست دائر ہوئی؟ وکیل علی ظفر نےکہا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر ہوچکی ہے۔ وکیل اظہر صدیق نےکہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے توہین عدالت کیس میں مبہم جواب دیا گیا، لاہور میں انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت 16 فروری کو ہوئی، اب 21 فروری کو ہوگی۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ نے اتنے لمبے التوا کی وجوہات دیں؟ ٹھوس وجوہات کے بغیر اہم معاملے میں اتنا لمبا التوا نہیں دیا جاسکتا۔
وکیل اظہر صدیق نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ میں جواب جمع کرانے کا وقت مانگا جس پر التوا دیا گیا۔
وکیل علی ظفر نےکہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے حکم کا احترام نہیں کیا، 14 فروری کو لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت دائر کی گئی، صدر مملکت نے معاملے پر 2 خطوط لکھے، 8 فروری کو پہلے خط میں الیکشن کمیشن کو تاریخ کے اعلان کرنےکا کہا گیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسارکیا کہ کیا صدر مملکت کے پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب دیا؟ اس پر وکیل علی ظفر نےکہا کہ میری معلومات کے مطابق پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب نہیں دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئےکہ صدر مملکت کا خط ہائی کورٹ کے حکم کے متضاد ہے، ہائی کورٹ نےگورنر سے مشاورت کے بعد تاریخ دینےکا کہا تھا، صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینےکا کہا۔
جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنر سے مشاورت آئین میں نہیں، اگر مشاورت نہیں ہوئی تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا۔
وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا موقف ہےکہ انتخابات کی تاریخ وہ نہیں دے سکتا، اصل معاملہ انتخابات کی تاریخ کا ہے جو دینے پر کوئی تیار نہیں، پہلے آپ، نہیں پہلے آپ کرکے تاخیر کی جارہی ہے، صدر نے تاریخ مقرر کرنےکے خط میں تمام حقائق کو واضح کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا صدر سےکسی نے رجوع کیا تھا کہ تاریخ دیں یا انہوں نے ازخود ایسا کیا؟ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ بنیادی حقوق کا معاملہ تھا اس لیے صدر کو مداخلت کرنا پڑی، کسی نہ کسی نے تو تاریخ کا اعلان کرنا ہی ہے، اگرعدالت سمجھتی ہےکہ الیکشن کمیشن تاریخ دےگا تو اسے حکم جاری کرے گی، ایسا نہیں ہوسکتا کہ جمہوریت میں خلا چھوڑ دیا جائے، باقی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انتخابات کسی اور ادارے نے کرانے ہیں تو وہ بھی عدالت کو بتادیں۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کے پی میں بھی اسمبلی تحلیل ہوئی ہے وہاں کیا پوزیشن ہے؟ اس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ کے پی میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی ہے، گورنر کے پی نے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا کہا ہے،گورنر کے پی نے اپنے خط میں سکیورٹی کو بنیاد بنایا ہے، انتخابات کی تاریخ تو گورنر کے پی نے بھی نہیں دی۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ میں 3 آئینی درخواستیں زیر التوا ہیں چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 21 دن کا نوٹس کیوں دیا فریقین کو؟ قانونی نکتہ طےکرنا ہے، یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا گورنر کہہ سکتا ہے کہ دہشت گردی ہو رہی ہے مشاورت کی جائے؟ میری نظر میں گورنر کے پی کو ایسا خط لکھنےکا اختیار نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کیس اب صرف اسی سوال پر چل رہا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہےجسٹس منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ تاریخ کے لیے مشاورت آئین میں شامل نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ الیکشن کمیشن اگر خود تاریخ دے دے تو کیا یہ توہین عدالت ہوگی؟ وکیل علی ظفر نےکہا کہ یہ سب تاخیری حربے ہیں، الیکشن کمیشن کا تاریخ دینا آئینی عمل ہے، کسی نے تو انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس میں الیکشن 10 سال تاخیرکا شکار ہوجائے، دوسرا فریق بتادے الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے، جسے یہ کہتے ہیں اسے تاریخ کا اعلان کرنے دیں۔
چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ اگر انتخابات کے لیے حالات سازگار نہیں تو اس کی وجوہات بتائی جائیں جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ الیکشن کی تاریخ آئےتو ہی فیصلہ ہوگا کہ اس وقت انتخابات ہوسکتےہیں یا نہیں، پورا مہینہ ضائع کردیا کہ گورنر نے مشاورت کا کہا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ امن وامان کا معاملہ گورنرکا نہیں الیکشن کمیشن کا ہے، کیا امن وامان کا معاملہ انتخابات کی آئینی راہ میں آسکتا ہے؟چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ سال 2013 اور 2018 میں اسمبلیوں نے مدت مکمل کی تھی۔
ڈی جی لاء الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اسمبلی مدت مکمل کرے تو صدر مملکت انتخابات کی تاریخ مقرر کرتے ہیںجسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئےکہ کے پی میں وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پرعملدرآمد ہوا لیکن پنجاب میں نہیں۔
وکیل علی ظفرکا کہنا تھا کہ اسمبلیاں نہ ہوں تو آئین میں گورننس کا کوئی اور طریقہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے لیے 90 دن کی حد مقررکی گئی ہے، 90 دن میں الیکشن کا ہونا ضروری ہے، صرف اعلان نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کرانا ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ذمہ انتخابات کے لیے انتظامات کرنا اور الیکشن کرانا ہے، آئین کے مطابق الیکشن کمیشن نے قومی،صوبائی اوربلدیاتی انتخابات کرانے ہیں، آرٹیکل 218، 219 اور 222 الیکشن کمیشن کو انتخابات کی ذمہ داری دیتے ہیں، تمام ایگزیکٹو ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں، الیکشن کمیشن بے بسی ظاہر کرے تو عدالت کو ایکشن لینا چاہیے۔
گزشتہ روز پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ نے 23 فروری کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا تحریری حکم جاری کردیا تحریری حکم نامے میں کہا گیا انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔
23 فروری کے حکم نامے میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ ہیں، جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ ہیں۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ بینچ کی ازسرنو تشکیل پر معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے، چاروں جج صاحبان کے نوٹ لکھنے پرطےکیا گیا کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ ازسرنو چیف جسٹس کو بھجوایا جائے۔