اٹارنی جنرل صاحب،حکومت کو بتادیں کورونا پوری قوم کا مسئلہ ہے کسی ایک پارٹی کا نہیں، چیف جسٹس

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں کرونا وائرس کی وجہ سے قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کے خلاف سماعت ہوئی

دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سنگین جرم کے قیدیوں کورہاکرناکس طرح درست ہے؟ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ کی تجاویز حکومتیں تسلیم کریں گی؟ عدالت عظمیٰ حکم دے گی تو سب تعمیل کریں گے، سندھ ہائیکورٹ کے آرڈر سے معلوم نہیں کون کون سے قیدی باہرآگئے ہیں،سندھ حکومت نے قیدیوں کو چھوڑا تو بعد میں واپس کیسے لائیں گے؟ وزارت انسانی حقوق حکومت کے موقف سے ہٹ کر موقف نہیں اپنا سکتی،

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ کورونا وبا ہو یا نہ ہو، جس کی ضمانت بنتی ہے اسے ملنی چاہیے،جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ سےسیدھا کیوں کہا جا رہا ہے کہ قیدی چھوڑ دیں،کیا ماتحت عدالتیں ضمانتیں نہیں دے رہیں، ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب اور منشیات کے قیدیوں کو بھی چھوڑ دیا، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب کے کسی ملزم کی ضمانت پر رہائی نہیں ہوسکی، حسین لوائی کو الگ حکم کے تحت ضمانت ملی،

ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آرٹیکل 187 کا استعمال کیا،آرٹیکل 187 کا اختیارصرف سپریم کورٹ استعمال کرسکتی ہے، جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہائیکورٹ کا حکم درست نہیں تو اسے چیلنج کیوں نہیں کیا؟ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ کیا اسلام آباد انتظامیہ قانون پر سمجھوتا کرنا چاہتی ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہائیکورٹ میں دائرہ اختیار کا سوال اٹھایا گیا تھا؟ ہائیکورٹ میں مقدمے کا عنوان ریاست بنام ضلعی انتظامیہ تھا، ہائیکورٹ میں ریاست کی جانب سے درخواست کس نے دی تھی؟

ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کی رپورٹ عدالت نے پٹیشن میں تبدیل کی،سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہائیکورٹ رجسٹرارنے فون پراسلام آباد کے قیدیوں کی تفصیل مانگی تھی،اسلام آباد ہائیکورٹ کا کوئی تحریری خط یاحکم نہیں ملاتھا،چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھیں گے آپ نے اس کیس میں کیسی معاونت کی، ہم اپنے آرڈر میں آپ کا ذکر بھی کریں گے،

چیف جسٹس گلزار احمد نے دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تفتان،چمن،طورخم بارڈرپرقرنطینہ کیے گئے لوگوں کیلئےتمام حفاظتی اقدام کریں،ان تینوں جگہوں پر لوگوں کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کریں،بارڈرز پر ہمارے پاس پارکنگ کی جگہ تک نہیں، بارڈرز پر بے ہنگم ٹرک کھڑے ہوتے ہیں،اٹارنی جنرل صاحب کبھی آپ نے چمن بارڈر دیکھا ہے؟ میں نے چمن بارڈر دیکھا ہے وہاں کیا کیا ہوتا ہے، اٹارنی جنرل صاحب ان تینوں بارڈرز پر لوگوں کی سہولیات پر کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتے ،

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پنجاب کی رپورٹ میں نے پڑھی ہے،ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عدالت میں پیش ہوئے ،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پنجاب میں مزید 50 قیدی کورونا پازیٹو پائے گئے ہیں، کیا ان مزید 50 قیدیوں کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے؟،ایڈیوکیٹ جنرل نے کہا کہ پہلا کورونا پازیٹو قیدی جوسامنے آیاتھا اسکا 494 لوگوں سے رابطہ ہوا تھا،

ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ رجسٹرار ایم آئی ٹی نے سیشن ججز کو ٹیلیفون پر ضمانت کیلئے کہا،ٹیلی فون پر انڈر ٹرائل قیدیوں کو ضمانت کی ہدایات کیسے دی جاسکتی ہیں؟جن کی ضمانت خارج ہوچکی تھی فون پر ان کو بھی ضمانت مل گئی، ایڈووکیٹ جنرل صاحب بتائیں کیا سندھ میں انڈر ٹرائل قیدیوں کی ضمانتیں قانون کے مطابق ہوئیں؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ صاحب ، آپ کا حال بھی ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد والا ہے،ملکوں میں فیصلے لکھے ہوئے آئین کے مطابق کیے جاتے ہیں ،  عدالتوں کا کام بھی قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہے، عدالتیں قانون اور حقائق سے ہٹ کر فیصلے نہیں کرسکتیں،انڈر ٹرائل قیدیوں کی ضمانتوں میں قانون اورحقائق کو نظرانداز کیا گیا،

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ فون پر زبانی ضمانتیں ہوں گی تو جسے دل چاہے گا اسے چھوڑ دیں گے،اٹارنی جنرل صاحب، تفتان، چمن اور طورخم پر2 ہفتوں میں قرنطینہ بنائیں، ہر آدمی کیلئے ایک کمرہ، علیحدہ باتھ روم اور بہترین خوراک مہیا کی جائے،پارلیمنٹ کے ذریعے حکومت معاملات حل کرے، حکومت کو عوام کو اعتماد میں لینا ہوگا، ہم لوگوں کی زندگیاں بچانے کیلئے ادویات تک باہر سے منگواتے ہیں، سب کچھ خود پیدا کرنا ہوگا، کھانے اور اناج کا بھی خود بندوبست کریں،اب وہ وقت آگیا ہے دوسرے ملک والے کچھ نہیں دیں گے،اب تو جیلوں میں بھی ماسک بنائے جا رہے ہیں، اتنی بڑی بڑی ٹیکسٹائل انڈسٹریاں ہیں، روزانہ بند کمرے میں بیٹھ کرکوئی حکومتی نمائندہ بیان جاری کردیتا ہے،اٹارنی جنرل صاحب حکومت کی معاونت کریں،سپریم کورٹ قیدیوں کی رہائی سے متعلق فیصلہ آج جاری کرے گی،کیس میں دیگر معاملات کو کل سنیں گے،

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین موجود ہے، عدالتوں، مقننہ اورانتظامیہ کو آئین کے تحت ہی کام کرنا ہے،عدالتوں کو مکمل طور پر قانون کے تحت فیصلے دینے ہیں، قانون نے ایسی ضمانتوں کا اختیار صرف سپریم کورٹ کو ہی دیا ہے،

میٹنگ میٹنگ ہو رہی ہے، کام نہیں ، ہسپتالوں کی اوپی ڈیز بند، مجھے اہلیہ کو چیک کروانے کیلئے کیا کرنا پڑا؟ چیف جسٹس برہم

ڈاکٹر ظفر مرزا کی کیا اہلیت، قابلیت ہے؟ عوام کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ، چیف جسٹس

انڈر ٹرائل قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کا معاملہ، عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی،عدالت نے کہا کہ آج کی سماعت کا حکم نامہ کل لکھوائیں گے،چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنی حکومت کو بتادیں کورونا پوری قوم کا مسئلہ ہے کسی ایک پارٹی کا نہیں،

لوگ تین چار دن شکلیں دیکھیں گے پھر ایک دوسرے کو ہی کھانے لگیں گے، چیف جسٹس برہم

Comments are closed.