چترال،باغی ٹی وی (نامہ نگارگل حماد فاروقی کی رپورٹ) گولین سےچترال ٹاؤن واٹرسپلائی پائپ لائن کوتباہ ہونے سے بچایاجائے-عوامی مطالبہ
چترال ٹاؤ ن کے پچاس ہزار آبادی کو پینے کی صاف پانی فراہم کرنے کیلئے بارہ سال پہلے 44 کروڑ روپے کی لاگت سے گولین سے پائپ لا ئن کے ذریعے قدرتی چشمے سے صاف پانی لایا گیا تھا۔ اس وقت سڑک صرف بارہ فٹ تارکولی تھا اس پائپ لائن کو سڑک کے کنارے پہاڑ کے جانب لایا گیا تھا مگر اب یہ سڑک نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حوالے ہوئی ہے جو اسے کشادہ کرکے اب اس پر تارکول ڈالے گا جس کی وجہ سے یہ پائپ لائن سڑک کے بیچ میں آگئی ہے ۔
مقامی ماہرین کے مطابق اگر ٹھیکیدار اس سڑک کو پائپ کو محفوظ جگہہ منتقل کرنے سے پہلے پکا کرتا ہے اور اس پر تارکول ڈالتا ہے تو اس صورت میں اگر پائپ سے پانی لیک ہوجائے تو تارکولی سڑک کو بہت نقصان پہنچائے گا اگر محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیرنگ والے اس پائپ لائن کی مرمت بھی کرنا چاہیں تو اس صورت میں بھی سڑک کو توڑنا پڑے گا اور ٹھیکیدار پھر پبلک ہیلتھ والوں سے اس کا تاوان مانگے گا۔
سماجی اور سیاسی شحصیت شریف حسین چئیرمین کا کہنا ہے کہ بارہ سال پہلے اس پائپ لائن کیلئے صوبائی حکومت نے 44 کروڑ روپے دئے تھے جو چترال ٹاؤن کے پچاس ہزار لوگوں کو پینے کی صاف پانی فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ این ایچ اے کے ٹھیکیدار کا کام ویسے بھی دو سال تاخیر کا شکار ہے اور چترال سے لیکر بونی تک 75 کلومیٹر سڑک اس کے ذمے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹھیکیدار اب راغ کے مقام پر اس سڑک پر اسی جگہ کنکریٹ ڈال رہا ہے جہاں سے پائپ لائن گزررہی ہے حالانکہ اس سے آگے بھی 50 کلومیٹر سڑک باقی ہے وہاں بھی کام کرسکتا ہے اور ویسے بھی اس پائپ لائن کو نکال کر محفوظ جگہ منتقل کرنے کیلئے 29 کروڑ روپے منظور ہوئے ہیں اور اس کا ٹینڈر بھی ہوا ہے۔شریف حسین نے کہا کہ اس ٹھیکیدار کے کام پر ہم نے بارہا اعتراض اٹھایا مگر لگتا ہے کہ اس کے بہت لمبے ہاتھ ہیں اور کسی نے اس سے پوچھا تک نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب وہ ٹھیکیدار اس طریقے سے محکمہ پبلک ہیلتھ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان کی پائپ لائن کو سڑک کی بیچ سے نکالنے سے پہلے اس نے اسی جگہ کنکریٹ کا کام شروع کیا اور جب اس پائپ لائن کو محکمہ پبلک ہیلتھ نکالے گا تو ٹھیکیدار ان سے جرمانے کا مطالبہ کرے گا
اعجاز احمد بھی ایک منتحب کونسلر ہے اس کا کہنا ہے کہ گولین میں قدرتی چشمے سے جو صاف اور ٹھنڈا پانی پائپ کے ذریعے چترال ٹاؤن اور جغور بکر آباد تک فراہم کیا جاتا ہے۔ سڑک کشادہ ہونے کی وجہ سے وہ پائپ لائن سڑک کے بیچ میں آگیا۔ یہ سڑک پہلے بارہ فٹ تارکولی تھی اب 24فٹ تارکولی ہوگی اور 10 فٹ اس کے ساتھ شولڈر یعنی فٹ پاتھ ہوں گے۔ سب سے پہلے اس پائپ کو سڑک کی بیچ سے نکالنا چاہئے اس کے بعد سڑک کی پختگی پر کام شروع کرنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ گولین سے بونی کی جانب آگے سڑ ک کشادہ بھی ہوچکی ہے اور پہاڑ کی کٹائی بھی کافی حد تک مکمل ہے ٹھیکیدار کو چاہئے کہ پہلے بونی کی جانب سے کام شروع کرے تب تک یہ پائپ لائن سڑک کے درمیان سے نکال کر دریا کے کنارے منتقل ہوجائے گی کیونکہ اس کیلئے تین ماہ کا وقت دیا گیا ہے اسے تین مہینوں کے اندر سڑک کی بیچ میں سے نکال کر محفوظ جگہہ منتقل کرنا ہے۔
فخراعظم بھی ایک ویلیج کونسل کا چئیرمین ہے اس کا کہنا ہے کہ گولین گول واٹر سپلائی سکیم سے تقریباً نصف چترال ٹاؤن کی آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم ہورہا ہے۔ جب اس پائپ لائن کو گولین سے لایا گیا تھا اس وقت سڑک تنگ تھی اور چھوٹی ہونے کی وجہ سے اسے پہاڑ کی دامن میں سے گزارا گیا اب اس سڑک کو 34 فٹ تک چوڑ ا کیا جارہا ہے اور جہاں پائپ لائن گزاری گئی تھی اسی جگہ پہاڑوں میں بلاسٹنگ کرکے انہیں گرایا گیا تاکہ سڑک کو کشادہ کیا جائے جس کے نتیجے میں پائپ لاین اب سڑک کے درمیان میں آگئی ہے
انہوں نے مطالبہ کیا کہ سب سے پہلے اس پائپ لائن کو سڑک کے بیچ میں سے نکالنا چاہئے اس کے بعد سڑک کی تعمیرکا کام شروع کرنا چاہئے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ گولین پائپ لائن جو 22کلومیٹر لمبی ہے اور بونی سڑک 75 کلومیٹر لمبی ہے اس 22 کلومیٹر والے حصے کو چھوڑ کر ٹھیکیدار اس سے آگے بھی کام کرسکتا ہے جب یہ پائپ لاین تین ماہ کے اندر سڑک سے نکال دی جائے توپھر اس جگہ پرسڑک کو تعمیر کیا جائے ورنہ پچاس ہزار لوگ پینے کی صاف پانی سے محروم رہ جائیں گے۔
اس سلسلے میں محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیرنگ کے دفتر سے رابطہ کیا گیا جن کے ترجمان نے کہا کہ جب یہ پائپ لائن گولین سے لائی جارہی تھی اس وقت سڑک چھوٹی تھی اور اسے محفوظ جگہیعنی پہاڑ کے دامن سے گزار کر لایا گیا اب سڑ ک کشادہ ہورہی ہے تو پائپ لائن اس کے درمیان میں آگئی ہے۔ اس کو نکالنے کیلئے ہم نے باقاعدہ ٹینڈرجاری کیا ہوا ہے اور 29 کروڑ روپے اس کیلئے منظور ہوئے ہیں اور ہماری کوشش ہوگی کہ تین مہینے کے اندر اسے سڑک کے درمیان سے نکال کر سڑ ک کے کنارے محفوظ جگہہ کو منتقل کرکے وہاں سے گزارا جائے تاکہ اگر پائپ سے پانی نکلنا شروع ہوجائے تو وہ تارکولی سڑک کو نقصان پہنچانے کا بھی باعث نہ بنے اور اگر ہمیں اس کی مرمت کی ضرورت پڑے تو اس کیلئے پھر دوبارہ سڑک کو نہ توڑنا پڑے۔