کبھی ایک وقت تھا جب قومی اخبارات میں کسی مسئلے کی نشاندہی کی جاتی تو پورے محکمے میں ہلچل مچ جاتی تھی افسران حرکت میں آتے تحقیقات شروع ہوتیں اور عوام کو یقین ہوتا کہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے مگر آج منظرنامہ یکسر بدل چکا ہے میڈیا شور مچاتا رہتا ہے رپورٹس شائع ہوتی ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی عوامی مسائل اب سرکاری فائلوں میں دب کر رہ گئے ہیں اور جنہیں ان کے حل کا ذمہ دار بنایا گیا تھا وہی اب اس بے حسی کا حصہ بن چکے ہیں کرپشن اقربا پروری اور اختیارات کا غلط استعمال اب معاشرتی معمول بن گیا ہے وہ ادارے جو عوام کی خدمت کے لیے بنائے گئے تھے وہی عوامی مشکلات کی جڑ بن چکے ہیں اے سی سے لے کر چیف سیکرٹری تک اور ایس ایچ او سے لے کر آئی جی تک سب کسی بڑے واقعے کے منتظر رہتے ہیں تاکہ بعد میں رسمی کارروائی کی جا سکے چھوٹے مسائل پر بروقت توجہ نہ دینے کے باعث وہی مسئلے وقت کے ساتھ سنگین بحران میں بدل جاتے ہیں اگر ذرا قریب سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ بدعنوانی اے سی اور ڈپٹی کمشنر کے دفاتر کے زیرِ انتظام چلنے والے شعبہ پٹوار میں نظر آتی ہے زمینوں کے انتقال حدبندی اور فرد کے اجراء سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے کاغذ تک سب کچھ چائے پانی کے بغیر ممکن نہیں عام شہری برسوں فائلوں کے پیچھے دوڑتا ہے مگر انصاف اور قانون صرف ان کے لیے دستیاب ہوتا ہے جن کے پاس تعلق یا سفارش ہو۔
سوال یہ ہے کہ جو افسر اپنے دفتر میں بیٹھے پٹواریوں کو ایمانداری سے کام نہیں کرواتا وہ اپنی تحصیل یا ضلع میں کس تبدیلی کا خواب دیکھ سکتا ہے دوسری طرف محکمہ پولیس کی مثال لیجیے اربوں روپے کی مراعات جدید سہولیات اور وسائل کے باوجود کیا کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ تھانوں میں کرپشن کم ہوئی ہے ایک عام شہری آج بھی ایف آئی آر درج کروانے کے لیے سفارش ڈھونڈتا ہے اور اکثر اوقات بغیر کچھ دئیے انصاف کا دروازہ بند رہتا ہے ظلم یہ ہے کہ عوام کے محافظ خود شکایت کا مرکز بن چکے ہیں افسران بالا جب کبھی فیلڈ میں جا کر کارروائی کرتے ہیں تو میڈیا کے کیمرے ان کے ساتھ ہوتے ہیں چند تصاویر اور بیانات کے بعد عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اصلاح شروع ہو گئی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انہی افسران کے اپنے دفاتر میں کرپشن اور نااہلی کا راج ہے جب اپنے دفتر میں ایمانداری قائم نہیں کی جا سکتی تو فیلڈ میں قانون کی عملداری کیسے ممکن ہے ریاست صرف قانون بنانے سے نہیں چلتی بلکہ قانون پر عمل درآمد سے مضبوط ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں قانون کمزور اور طاقتور مضبوط ہوتا جا رہا ہے عوام کا اعتماد اداروں سے ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ انصاف اب فائلوں فون کالز اور سفارشوں کے گرد گھومتا ہے اگر واقعی تبدیلی مقصود ہے تو اس کا آغاز نیچے سے ہونا چاہیے دفاتر کے اندر سے احتساب دیانت اور شفافیت صرف نعرے نہیں بلکہ نظام کی بنیاد بننے چاہیے جب تک افسران اپنے ماتحت عملے کو قانون کے تابع نہیں کریں گے جب تک پولیس اپنے دروازے عام آدمی کے لیے نہیں کھولے گی اور جب تک کرپشن کو معمول سمجھنے کا رویہ ختم نہیں ہوگا تب تک کوئی اصلاح ممکن نہیں ورنہ وہ وقت دور نہیں جب عوام کا یقین مکمل طور پر ختم ہو جائے گا میڈیا شور مچاتا رہے گا رپورٹس بنتی رہیں گی مگر سننے والا کوئی نہیں ہوگا کیونکہ ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داری دفاتر کے دروازوں پر چھوڑ دی ہے۔
شاہد یوسف نارنگ منڈی








