اگر کوئی ٹھوس وجہ ہو تو مجھ سمیت کوئی بھی جج اپنا فیصلہ تبدیل کرسکتا ہے، چیف جسٹس

supreme court

سپریم کورٹ ،حمزہ شہبازکے انتخاب سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہو گئی ہے

عرفان قادر نے کہا کہ میرے موکل نے ہدایات کی ہیں کہ اس کیس میں مزید پیش نہیں ہونگے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میرے موکل کی جانب سے بھی یہی ہدایات ہیں کہ پیش نہ ہوں۔ہم نظر ثانی درخواست دائر کرینگے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو ابھی تک ہم نے فریق نہیں بنایا، عدالت نے بیرسٹرعلی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اس کیس کو جلدی سے مکمل کریں ، ہم فل کورٹ ستمبرکے دوسرے ہفتے تک نہیں بنا سکتے، عدالت اس کیس کے میرٹس پر دلائل سنے گی،پیپلزپارٹی تو کیس کی فریق ہی نہیں، ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا گیا،عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے کے حوالے سے دلائل دیئے گئے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہے،اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں،اس سوال کے جواب کیلئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں،

عرفان قادر نے کہا کہ فل کورٹ کے مسترد کیے جانیکے فیصلے پر نظر ثانی فائل کرینگے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ تاخیری حربے جیسا ہے 1988میں صدر نے کابینہ کو ہٹایا،63 والے کیس میں آج جو سوال ہے وہ اس وقت نہیں تھا، 21 ویں ترمیم کے فصلے کے مطابق پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہدایات دے سکتا ہے، آئین کہتا ہے کہ ووٹ دینے کی ہدایت پارلیمانی پارٹی دے سکتی ہے ،کیا 17 میں س8ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟ فل کورٹ بینچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا،دلائل کے دوران21ویں ترمیم کیس کا حوالہ دیا گیا ، 21ویں ترمیم والے فیصلے میں آبزرویشن ہے کہ پارٹی سربراہ ووٹ دینے کی ہدایت کر سکتا ہے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف منحرف ہونے کے نتائج کا تھا، 18 ویں اور 21 ویں ترمیم والے کیس میں یہ معاملہ ہمارے سامنے نہیں آیا،63 اے والے کیس میں بھی ایسا کوئی ایشو سامنے نہیں آیا، علی ظفر آپ درخواست کے میرٹس پر دلائل دے کر عدالت کی معاونت کریں،جو دلائل میں باتیں کی گئیں اس کے مطابق فل کورٹ تشکیل نہیں دی جاسکتی تھی، اس عدالت کا موقف تھا کہ وزیر اعظم جو چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اس کے بغیر حکومت نہیں چل سکتی ،علی ظفر نے کہا کہ اس وقت 63 اے سے متعلق سوال تھا کہ کیا یہ شق درست ہے یا نہیں ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس عظمت نے اپنے فیصلے میں پارٹی سربراہ کی بات کی،عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے والے اعلیٰ وقار کا مظاہرہ کریں، بائیکاٹ کردیا ہے عدالتی کارروائی کو سنیں،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل علی ظفر کو ہدایت کی کہ قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں یا پھر ہم اس بینچ سے الگ ہو جائیں، جو دوست مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اپنے کام کو عبادت کا درجہ دیتا ہوں، علی ظفر نے فیصلے سے حوالہ دیا اور کہا کہ آرٹیکل63 اے آئین کی ایس شق ہے جو پارٹیوں میں نظم پیدا کرتی ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پارٹی لائن پارلیمانی پارٹی دے سکتی ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ اکیسویں ترمیم سے متعلق درخواستیں 13/4 کی نسبت سے خارج ہوئی تھیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آئینی نکات پر معاونت کریں یا پھر ہم بینچ سے الگ ہوجائیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شکر ہے کہ کچھ وکلا عدالتی کارروائی دیکھنے کے لیے موجود ہیں،علی ظفر نے کہا کہ اکیسویں ترمیم والے کیس میں کچھ ججز نے اپنے الگ سے وجوہات لکھیں تھیں،

سپریم کورٹ میں علی ظفر نے مختلف عدالتی فیصلوں کے نظائر پیش کیے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے علی ظفر کے دلائل پر استفسارکیا کہ اٹھارویں ترمیم نے 63 شق کو موڈیفائی کیا ، آپ یہ کہنا چاہتے ہیں،پارلیمانی پارٹی اور پارٹی ہیڈ کیا الگ لگ ہوتے ہیں ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی ہیڈ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات پر عمل کرتا ہے ؟پارٹی ہیڈ منحرف ارکان کے خلاف ریفرنس بھیجتا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی پارٹی اکیلے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی ، کوئی اصول ہوگا،میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ پارلیمانی پارٹی میں کوئی پروسیس ہوگا ، علی ظفر نے کہا کہ دنیا بھی میں آخری فیصلہ پارلیمانی پارٹی کرتی ہے پارٹی ہیڈ کا آئینی اختیار فیصلے پر عمل کرانا ہے،عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ پارلیمنٹ پارٹی فیصلہ کرتی ہے اور اس پر کوئی رکن خلاف جاتا ہے تو سربراہ ایکشن لیتا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ پارٹی ہیڈ کچھ بھی شروع نہیں کر سکتا ،علی ظفر نے کہا کہ آئین میں کہیں بھی پارلیمانی پارٹی کے ساتھ پارٹی ہیڈ نہیں لکھا جسٹس جواد خواجہ نے اکیسویں ترمیم والے کیس مل یں 63کو آئین سے متصادم قرار دیا تھا،جسٹس جواد خواجہ نے اپنے فیصلے میں وجوہات بیان نہیں کی تھیں،میں جسٹس جواد ایس خواجہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا،آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایت پارلیمانی پارٹی کرتی ہے ،آرٹیکل 63 میں پہلے 1998 میں پارلیمانی پارٹی لکھا تھا جو 2002 میں تبدیل ہو کر پارلیمانی ہیڈ لکھا گیا،

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی سے انحراف کرنے والے کے خلاف ایکشن لینا یا اس کی شروعات کرنے کا اختیار آئین کے مطابق پارٹی ہیڈ کے پاس ہے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سابق جج میاں ثاقب نثار نے وہ درخواستیں خارج کرکے ایک الگ سے نوٹ لکھا تھا، ثاقب نثار نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ آئین کا آرٹیکل 63 ایک دہائی سے فلور کراسنگ کا سبب رہا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جج کا بار بار اپنی رائے تبدیل کرنا اچھی مثال نہیں ہوتی،جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے، علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں جسٹس عظمت سعید کی آبزرویشن آئین کے خلاف ہے، اکیسویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے ایشو نہیں تھا،جسٹس عظمت سعید کی آبزرویشن کی سپریم کورٹ پابند نہیں ،جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ پارلیمانی لیڈر والا لفظ کہاں استعمال ہوا ہے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے علی ظفر سے سوال کیا کہ آئین کیا کہتا ہے کہ کس کی ہدایات پر ووٹ دیا جائے، علی ظفر کا کہنا تھا کہ
آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایات پارلیمنٹری پارٹی دیتی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا پارلیمنٹری پارٹی، پارٹی سربراہ سے الگ ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر دو الگ الگ چیزیں ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کراتا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی جماعت اپنے طور پر تو کوئی فیصلہ نہیں کرتی،سیاسی جماعت کا فیصلہ پارلیمانی جماعت کو آگاہ کیا جاتا ہے جس کی روشنی میں وہ فیصلہ کرتی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش کہا میں بھی عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 63 میں پارٹی ہیڈ کا معاملہ پہلے الگ سے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی سالڈ ریزن ہو تو مجھ سمیت کوئی بھی جج اپنا فیصلہ تبدیل کرسکتا ہے فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہوجائے اس لئے سب کو معاونت کی کھلی دعوت ہے، جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت حکمران اتحاد کے فیصلے سے الگ ہوگئی ہے؟ عامر رحمان نے کہا کہ میں صرف آرٹیکل 27کے تحت عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ دیکھنا ہے کی ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط تواستعمال نہیں کیا؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نکتہ یہ ہے کہ دوسرا فریق یہاں موجود ہے لیکن کارروائی میں حصہ نہیں لے رہا،اقوام متحدہ میں جو ملک ممبر نہیں ہوتا وہ آبزرور ہوتا ہے ،

کیس کی سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ کر دیا گیا

قبل ازیں چوہدری مونس الٰہی 9 ایم پی ایز کے ہمراہ سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں،بائیکاٹ کے باوجود ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل عرفان قادر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔چوہدری شجاعت کے وکیل بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں گزشتہ روز پی ڈی ایم نے سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا مگر آج ان کے وکلاء سماعت سے قبل سپریم کورٹ پہنچ گئے.پی ٹی آئی رہنما پرویز خٹک اور پیپلزپارٹی کے فاروق ایچ نائیک بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں

سپریم کورٹ میں بڑی سماعت ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ سے متعلق متوقع فیصلے کے پیش نظر سیکورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے،سپریم کورٹ کے اطراف آنیوالے راستوں کو بند کر دیا گیا ہے، ڈی چوک، نادرا چوک سمیت دیگر شاہراہوں کو بند کر دیا گیا خار دار تاریں، بلاکس لگا کر بند کیا گیا ہے

سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کے الیکشن سے متعلق گزشتہ روز کی سماعت کا حکمنامہ جاری کردیا۔حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ فل کورٹ کی استدعا مسترد کی جاتی ہے، فل کورٹ تشکیل نہ دینے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی،حمزہ شہباز ،ڈپٹی اسپیکر اور دیگر وکلاء کی طرف سے مزید وقت مانگا گیا ہے فریق دفاع کے وکلاء کی مزید وقت کی استدعا منظور کی جاتی ہے تمام وکلاء 26 جولائی کو مقدمے کی تیاری کرکے آئیں،

 حکومتی اتحاد کی فوری فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست مسترد

 فل کورٹ مستر کیا جاتا ہے تو ہم بھی عدلیہ کےاس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں.حکمران اتحاد 

سینیٹ اجلاس میں "فرح گوگی” کے تذکرے،ہائے میری انگوٹھی کے نعرے

فرح خان بنی گالہ کی مستقل رہائشی ،مگرآمدروفت کا ریکارڈ نہیں، نیا سیکنڈل ،تحقیقات کا حکم

مریم نواز کی حکومتی اتحاد کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس

پرویز الہٰی کے وکیل نے نظرثانی درخواست کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بنانے کی استدعا کردی

Comments are closed.