حافظ عبدالرحمان مکی کی شان و جلالت اور بھارتی میڈیا،تحریر:قاضی کاشف نیاز

حافظ عبدالرحمان مکی رحمہ اللہ کی شان و جلالت اور بھارتی میڈیا
تحریر: قاضی کاشف نیاز
میں اس کے مقام کا کیا اندازہ لگاؤں جس کی موت پر دشمن بھی بڑھ چڑھ کر خوشیاں منا رہا ہو۔ ایسے عظیم شخص کے مقام کی حد کو میں پا ہی نہیں سکتا۔ ذرا دیکھیں تو سہی کہ کفر کے ایوانوں میں کس قدر شادیانے بج رہے ہیں۔ انڈیا کا شاید ہی کوئی چینل ہو جو مکی رحمہ اللہ کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دے کر بغلیں نہ بجا رہا ہو۔ این ڈی ایم انڈیا نیوز سے لے کر زی نیوز، نیوز نیشن، بھارت 24، ہندوستان ٹائمز، سنسکرتی ایاز (Iuyas Sanskrit) رتام انگلش نیوز (Ritam English News) اور انڈیا ٹوڈے تک، انڈیا کے تقریباً سبھی نیوز چینلز حافظ عبدالرحمان مکی رحمہ اللہ کی وفات کو ایک بہت بڑی خبر اور اس دن کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز بنا کر چیخ چیخ کر، چلا چلا کر اور گلا پھاڑ پھاڑ کر دنیا کو بتاتے رہے کہ ہمارا ایک سب سے بڑا دشمن، 26/11 کا ماسٹر مائنڈ، ہماری جان چھوڑ چکا۔

خیر، یہ تو اس کی ایک اور بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح اس کی جان چھوٹ گئی ہے۔ اسے اندازہ ہی نہیں کہ ایک مکی رحمہ اللہ کے جانے سے اس کی جان نہیں چھوٹی بلکہ مکی رحمہ اللہ کی موت تو پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ "مکی” پیدا کر چکی ہے۔ پہلے صرف ایک جماعت اور اس سے وابستہ لوگ ہی مکی رحمہ اللہ کو جانتے تھے۔ اب پاکستان کا شاید ہی کوئی طبقہ ہو جو مکی رحمہ اللہ کی شان میں رطب اللسان نہ ہو۔

آج تو بڑے بڑے لبرل دانشور اور اے این پی جیسی لبرل سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی ان کی عظمت بیان کر رہے ہیں اور بڑے بڑے وفود کی صورت میں تعزیت کے لیے ان کے در پر پہنچے ہیں۔

واہ مکی رحمہ اللہ! تیرے کیا کہنے۔ تو جب تک زندہ رہا، دعوت و جہاد اور انبیاء علیہم السلام کی سیاست کے مشن کو آسمان تک پہنچایا اور مرا بھی تو اس طرح کہ اس مشن کو اوجِ ثریا تک پہنچا گیا۔ وہ رخصت ہوئے تو یہ کہتے ہوئے کہ وقت بہت کم ہے اور پھر کلمہ پڑھتے ہوئے یہاں تک بتا گئے کہ فرشتے ان کی روحِ سعید کے استقبال کو اور لینے کو آ پہنچے ہیں۔

اسی قابل رشک موت کی وجہ سے ہی آج کفر کا ہر ایوان مکی رحمہ اللہ کی گونج سے لرز رہا ہے۔ ان کی خوشیاں بتا رہی ہیں کہ اندر سے یہ بزدل کفار حافظ عبدالرحمان مکی رحمہ اللہ سے کس قدر خوفزدہ اور دہشت زدہ تھے۔ وہ تھی ہی ایسی شخصیت۔

ان کے ہم عصر ساتھی بتاتے ہیں کہ اپنے طالب علمی کے زمانے میں بھی وہ سرخوں اور ملحدوں کے لیے ہمیشہ دہشت کی علامت رہے۔ جب اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے اور سرخوں سے مقابلہ ہوتا تو انہیں ہی سب سے آگے کیا جاتا۔

ایک دفعہ سرخوں کا پورا جلوس اپنی مار دھاڑ دکھا رہا تھا تو اسلام پسندوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان سے کیسے نمٹا جائے۔ آخر مشورہ ہوا کہ کسی طرح حافظ عبدالرحمان کو لایا جائے تو وہ ان کا آسانی سے توڑ کر لیں گے۔ چنانچہ وہ آئے تو پھر اس طرح شیر کی طرح آئے کہ اکیلے ہی اپنے موٹر سائیکل پر سوار پوری تیزی سے سرخوں کے جلوس کی طرف رخ کر لیا۔

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن تو رن ہے، چرخ کہن کانپ رہا ہے

کا مصداق بن کر جوں ہی موٹر سائیکل ان کی طرف چڑھائی، سرخوں کا سارا جلوس ہی آناً فاناً تتر بتر ہو گیا۔

پھر باقی ساری زندگی بھی کفر کا ہر ایوان ان سے یوں ہی لرزتا رہا اور آج تک لرز رہا ہے۔ اپنی موت سے بھی انہیں ایسا لرزایا اور ڈرایا کہ وہ اسے کبھی بہت بڑا دہشت گرد کہتے ہیں، کبھی بہت بڑا انتہا پسند، اور کبھی 26/11 کا سب سے بڑا سرغنہ قرار دے رہے ہیں۔

یہ دراصل مکی صاحب رحمہ اللہ کے لیے وہ خطابات ہیں جو انہیں کفر کے ایوانوں سے مل رہے ہیں اور یہ خطابات انہیں جس قدر مل رہے ہیں، اسی قدر یہ خطابات ان کے لیے اعزاز بن کر اللہ کی بارگاہ میں جرأت اور بہادری کے تمغوں میں ڈھلتے جا رہے ہیں۔

اللہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ وادخلہ الجنہ الفردوس۔ آمین ثم آمین!

Comments are closed.