شانِ پاکستان
تحریر ۔ حافظ حمزہ سلمانی
پاکستان صرف ایک ملک کا نام نہیں، بلکہ ایک عقیدہ، ایک نظریہ، اور ایک عظیم خواب کی تعبیر ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جو قربانیوں کی لازوال داستانوں سے وجود میں آئی، جہاں ہر اینٹ، ہر ذرہ، ہر پرچم کا رنگ، قوم کی عظمت، غیرت اور حمیت کی گواہی دیتا ہے۔ "شانِ پاکستان” کہنا گویا ان تمام خوبیوں اور قدروں کا مجموعہ ہے جو اس وطنِ عزیز کو دنیا میں ممتاز بناتی ہیں۔
پاکستان کی شان اُس وقت ابھری جب برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ ریاست کا خواب دیکھا، جہاں وہ اپنے دین، ثقافت، تہذیب، اور روایات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اس خواب کو تعبیر دینے کے لیے علامہ اقبالؒ نے فکری رہنمائی دی اور قائداعظم محمد علی جناحؒ نے حکمت، عزم، اور تدبر سے اُسے عملی شکل دی۔ لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر یہ سرزمین حاصل کی، اور یوں پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ایسی نظریاتی ریاست کے طور پر ابھرا جو اسلام کے اصولوں پر مبنی تھی۔
شانِ پاکستان اس کی بے مثال ثقافت، دلکش مناظر، شاندار ورثے، اور غیور عوام میں بھی جھلکتی ہے۔ چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے رنگ، رسم و رواج، اور روایات مل کر ایک ایسی حسین تصویر بناتے ہیں جس پر ہر پاکستانی کو ناز ہے۔ پنجابیوں کی گرمجوشی، سندھیوں کی مہمان نوازی، بلوچوں کی غیرت، پختونوں کی بہادری، کشمیریوں کی وفایہ سب پاکستان کی خوبصورتی اور شان کا مظہر ہیں۔
پاکستان کی زبان، ادب، اور فنون لطیفہ بھی اس کی شان کے امین ہیں۔ اردو ادب نے شاعری، افسانہ، تنقید، اور نثر میں جو بلند مقام حاصل کیا، وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، اور پروین شاکر جیسے شعرا نے پاکستان کے جذبات، درد، خواب اور امیدوں کو اپنے اشعار میں سمویا۔
فیض احمد فیضؔ نے کہا تھا:
"نکلے ہیں عزم لے کے ہم اہلِ وفا کی بزم سے
تارے بھی توڑ لائیں گے، گل بھی کھلا کے چھوڑیں گے”
یہ اشعار اس یقین کو ظاہر کرتے ہیں جو قوم کی شان اور قوتِ ارادی کی علامت ہے۔
پاکستان کی فوج، اس کی سیکیورٹی ایجنسیاں، اور محنتی عوام بھی شانِ پاکستان کا اہم حصہ ہیں۔ ہماری افواج نے نہ صرف جنگوں میں جرات مندی سے دشمن کا مقابلہ کیا بلکہ امن کے وقت بھی زلزلوں، سیلابوں اور دیگر آفات میں قوم کے لیے سینہ سپر ہوئیں۔
محسن نقویؔ نے اس جذبے کو خوبصورت انداز میں کہا:
"یہ جو سرحد پہ کھڑے ہیں، یہ تمھارے جیسے ہیں
فرق بس اتنا ہے کہ یہ جاگتے رہتے ہیں”
پاکستان کی شان اُس وقت اور بھی نمایاں ہوتی ہے جب ہم اپنے قومی پرچم کی جانب دیکھتے ہیںسبز رنگ مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے اور سفید رنگ اقلیتوں کے احترام کا اعلان ہے۔ ستارہ اور ہلال ترقی و روشنی کا استعارہ ہیں۔ یہ پرچم ہماری وحدت، ایمان، اور قربانی کی روشن علامت ہے۔
پاکستان کی ترقی بھی اس کی شان ہے۔ ایٹمی طاقت بننا، اقوامِ متحدہ میں ایک باوقار آواز رکھنا، دنیا بھر میں پاکستانیوں کی کامیابی، یہ سب ثابت کرتے ہیں کہ ہم ایک باصلاحیت قوم ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے لے کر ارفع کریم تک، عبدالستار ایدھی سے ملالہ یوسفزئی تک، پاکستانیوں نے ہر شعبے میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔
ہمارے کسان، مزدور، طالب علم، اساتذہ، اور سائنسدان، سب پاکستان کی بنیاد کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
احمد ندیم قاسمیؔ نے کہا:
"نئی منزل کے خواب آنکھوں میں
نئی نسلوں کے پاس ہوتے ہیں”
یہ نسلیں ہی پاکستان کی حقیقی شان اور روشن مستقبل کی ضامن ہیں۔
شانِ پاکستان کا ایک اور پہلو اس کی اسلامی شناخت ہے۔ ہمارا آئین، ہمارے ادارے، اور ہماری تربیت اسلام کے اصولوں پر استوار ہے۔ عدل، مساوات، اخوت، اور دیانت،یہ وہ ستون ہیں جن پر ایک مضبوط قوم کھڑی کی جا سکتی ہے۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ شانِ پاکستان صرف حکومتی کارکردگی یا فوجی طاقت سے نہیں، بلکہ عوام کے کردار، اتحاد، دیانت، اور حب الوطنی سے وابستہ ہے۔ اگر ہم ہر فرد کو باعزت زندگی دیں، تعلیم، صحت، انصاف مہیا کریں، اور قوم کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں تو پاکستان کی شان مزید بلند ہوگی۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ پاکستان کی شان ہم سب سے وابستہ ہے۔ یہ ملک ہمارے آبا و اجداد کی قربانیوں کا ثمر ہے، اور اس کی حفاظت، تعمیر، اور ترقی ہماری اولین ذمہ داری ہے۔
"یہ وطن تمھارا ہے، تم ہو پاسبان اس کے
یہ چمن تمھارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے”
فاطمیؔ
اللہ کرے پاکستان ہمیشہ سلامت رہے، ترقی کرے، اور دنیا کے نقشے پر ایک باعزت، پرامن، اور خوشحال ملک کے طور پر پہچانا جائے۔
پاکستان زندہ باد!
شانِ پاکستان پائندہ باد!








