انسانوں کی اس منڈی میں کب پیش نظر معیار رہا
جب لاکے ترازو میں رکھا جو لوگ تھے بھاری جیت گئے
21فروری 1978 میں پیدا ہونے والی شاعرہ ہاجرہ نور زریاب کا پورا نام ہاجرہ پروین ہے جبکہ ہاجرہ نور زریاب ان کا قلمی نام ہے ان کی تصنیفات میں ،چاند کے زینے پر، گم شدہ خیالوں کے عکس شامل ہیں-
ایوارڈ
۔۔۔۔۔
۔  (1 )پروین شاکر ایوارڈ، صراط مستقیم کالج سلطان پور لکھنو
۔   (2) سرسید احمد خان ایوارڈ، جے پور
غزل
۔۔۔۔۔۔
شاہوں کے مصاحب جیت گئے، طاقت کے حواری جیت گئے
غربت کو شکست ِفاش ہوئی، دولت کے پجاری جیت گئے
ایامِ اسیری بیت گئے، حالات کے بندی خانے میں
سچائی یہاں مصلوب ہوئی ،جلسوں کے مداری جیت گئے
اس جنگل کے قانون کی بھی بجھ پائی نہیں ہے پیاس کبھی
معصوم پرندے ہار گئے، بے رحم شکاری جیت گئے
دنیا کے تجارت خانے میں، ہر جنس گراں پامال ہوئی
ارباب ِہنر ناکام رہے، زر کے بیوپاری جیت گئے
انسانوں کی اس منڈی میں کب پیش نظر معیار رہا
جب لاکے ترازو میں رکھا جو لوگ تھے بھاری جیت گئے
جو راہ وفا میں ان کو ہوئی،ہیں اہل جنوں اس مات پہ خوش
اور تم مغرور کہ یاروں سے، کرکے غداری جیت گئے
وہ لوگ خس و خاشاک ہوئے، پھولوں میں جو رکھنے والے تھے
زریاب مگر کچھ پتھر دل احساس سے عاری جیت گئے
غزل
۔۔۔۔۔۔
جب تیری توجہ کے طلبگار ہوئے ہیں
اشعار میں الفاظ گرفتار ہوئے ہیں
کھوئے ہوئے لمحات مری نیند میں آ کر
خوابوں کے جھروکوں میں نمودار ہوئے ہیں
تم جب بھی گئے یاد کی راہوں سے گزر کر
ہم ایک نئے کرب سے دوچار ہوئے ہیں
موجود ہے بس ذات کی خستہ سی عمارت
دلکش تھے خدوخال جو مسمار ہوئے ہیں
چھیڑا ہے دکھی ساز کے تاروں کو کسی نے
سوے ہوئے نالے کہیں بیدار ہوئے ہیں
تسکین تو دی ہے ترے آنے کی خبر نے
لمحات مگر اور بھی دشوار ہوئے ہیں
زریاب تھے جو آبرو ، کل صحن چمن کی
نیلام وہی گل سر بازار ہوئے ہیں
غزل
۔۔۔۔۔
دل مرا مضطر بہت پیہم رہا
زندگی بھر زندگی کا غم رہا
کچھ تو حاوی درد کا موسم بھی تھا
کچھ مقدر بھی مرا برہم رہا
معجزے ہیں سب تمھارے عشق کے
وصل میں بھی ہجر کا عالم رہا
منزلیں پھر سے مقدر ہو گئیں
راہ بھر پھر یاد کا عالم رہا
کس طرف لے آئی ہے یہ زندگی
وقت ہم پر مہرباں کیوں کم رہا
پھر کسی کے تلخ لہجے کے سبب
ہر چراغ آرزو مدھم رہا
قہقہوں کے ساتھ آنسو تھے رواں
رات خوشیوں میں بپا ماتم رہا
میں نے چھو کر دیکھا اُس کے ہاتھ کو
میرے ہاتھوں میں بھی جامِ جم رہا
جب بھی دیکھا آئنہ زریاب نے
عکس دھندلا ہی سہی تاہم رہا








