پاکستان کی وزارت پٹرولیم کو ایک مضحکہ خیز ذمہ داری دی گئی جس پر عمل نہیں ہو سکتا ہے پھر بھی وہ کام کر رہے ہیں، اس ذمہ داری کا مقصد ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنا ہے جس میں امیروں سے پٹرول کے پیسے زیادہ وصول کئے جائیں گے اور چھوٹی گاڑیوں والوں کو سبسڈی دی جائے گی،جو مہنگائی کی وجہ سے متاثر ہیں،
حکومت کی اس تجویز پر کیا کیا جائے؟ کیونکہ اس طرح مسئلے کا حل نہیں ہو گا اور یہ منصوبہ ناقابل عمل ہے،سب سے پہلے بڑی گاڑیوں میں وین اور ٹرک شامل ہیں، اگر ان کے لئے تیل کی قیمت میں اضافہ کیا جائے گا تو اسکا اثر تمام چیزوں پر پڑے گا اور افراط زر میں اضافہ دیکھنے میں ملے گا، حالانکہ مصنوعات کی قیمتیں تمام صارفین کے لئے ایک ہیں ،دوسرا، تعمیراتی سامان بھی وینوں اور ٹرکوں میں لے جایا جاتا ہے جیسے سیمنٹ، لکڑی، ریت، بجری،اسکی لاگت بھی خریدار پر ہی آئے گی،
تیسری چیز، وین اور بس، سامان کے علاوہ دیگر مقاصد کے لئے بھی استعمال ہوتی ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال معاشرے کا غریب طبقہ ہی کرتا ہے جن کے پاس کار یا موٹر سائیکل نہیں ہوتی، تعلیمی اداروں کے طلبا کے لئے بھی بسوں کا استعمال ہوتا ہے،چوتھا، گھروں میں جہاں ایک چھوٹی اور بڑی کار ہوتی ہے، گھر پہنچنے کے بعد چھوٹی کار کو ٹینک بھرنے اور بڑی گاڑی میں لوڈ آف لوڈ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔پانچواں ،حکومت کے اس فیصلے سے کریم اور ان ڈرائیو جیسی کار سروسز کے کاروبار کو نقصان پہنچے گا۔ اور اس سے متاثر ہونے والے وہ لوگ ہوں گے جو عام طور پر گاڑی کے متحمل نہیں ہوتے ہیں
حکومت کے اس سبسڈی والے آئیڈیا کو دیکھا جائے تو اس پر عمل کرنا اور لاگو کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا کیونکہ اس کے ناکام ہونے کی کئی وجوہات سامنے آ رہی ہیں،