حکومت اپنا چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن چاہتی ہے،سراج الحق

sirajullhuq

سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت یہی چاہتی ہے کہ اس کا اپنا چیف جسٹس اور اپنا الیکشن کمیشن ہو۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم منظور ہو چکی ہے اور اب اس پر کوئی واپسی ممکن نہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں جو فیصلے ایک بار کر لیے جاتے ہیں، وہ واپس نہیں ہوتے، چاہے چیف جسٹس تبدیل ہو یا نہ ہو۔ سراج الحق نے کہا کہ چیف جسٹس پہلے بھی ہوتے ہیں اور ان کی تبدیلی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔سراج الحق نے ملکی معاشی نظام پر بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ سودی نظام کا خاتمہ 2028 تک ممکن ہو جائے گا، اور اگر اس پر عملدرآمد ہوا تو ملک ترقی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بینکنگ کا نظام بہتر ہو جائے گا، اور ملکی معیشت میں واضح بہتری آئے گی۔ ان کے مطابق سودی نظام کے مکمل خاتمے سے مہنگائی، بے روزگاری، اور کرپشن جیسے مسائل کا حل ممکن ہے۔
سابق امیر جماعت اسلامی نے اپنی جماعت کی جہدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان مسائل کے خلاف اپنی مہم جاری رکھیں گے اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے سودی نظام کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔سراج الحق نے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے معاہدوں پر حکومت کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کچھ معاہدے ختم کیے ہیں اور مزید معاہدوں پر کام جاری ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ جب تک ان معاہدوں کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچتا، جماعت اسلامی مطمئن نہیں ہوگی۔سراج الحق نے نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو مبارکباد پیش کی اور امید ظاہر کی کہ وہ قانون کے مطابق ملک کی بہتری کے لیے فیصلے کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کا کردار ملک کی عدالتی اور قانونی بہتری کے لیے نہایت اہم ہے اور انہیں امید ہے کہ نئے چیف جسٹس اپنے فرائض دیانتداری سے انجام دیں گے۔
سابق امیر جماعت اسلامی نے لاہور کالج واقعہ کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ جماعت نے اس معاملے پر ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے اپنی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ جھوٹا ثابت ہوا ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ نہ متاثرہ لڑکی ملی اور نہ ہی کوئی اور ثبوت سامنے آیا، جس سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ واقعہ بے بنیاد تھا۔سراج الحق کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی ملک میں انصاف اور معاشی بہتری کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور حکومت کی پالیسیوں پر تنقید بھی جاری رکھے گی۔

Comments are closed.