خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران کارکنوں کو واپسی کی ہدایت دینے پر کارکنوں نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ان کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے خیبر پختونخوا سے آنے والے کارکنوں کی قیادت کرتے ہوئے قافلے کی صورت میں برہان انٹرچینج تک کا سفر کیا، جہاں وہ کئی گھنٹوں تک ٹریفک میں پھنسے رہے۔ کارکنوں کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ انہیں ان کا آئینی حق نہیں دیا جا رہا اور ان کے احتجاج کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔علی امین گنڈاپور نے مزید کہا، "یہ حکومت ہمیں ہمارا آئینی حق نہیں دیتی۔ یہاں آنسو گیس اور فائرنگ کی گئی، لیکن بانی پی ٹی آئی کا حکم ہے کہ ہر صورت میں احتجاج ریکارڈ کرانا ہے۔” انہوں نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ ان کے لیے پارٹی قائد کا حکم ریڈ لائن ہے اور تحریک انصاف کا یہ احتجاج کسی صورت میں ختم نہیں ہوگا۔
وزیراعلیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ "راولپنڈی میں احتجاج کا وقت ختم ہو چکا ہے، میں نے بیرسٹر گوہر سے بات کی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ اب مزید وقت نہیں بچا۔ ہم یہاں یہی احتجاج کریں گے۔” انہوں نے کارکنوں کو یقین دلایا کہ ان کی گاڑی فرنٹ لائن پر موجود ہے اور وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں۔علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ کچھ کارکنوں نے پولیس اہلکاروں کو پکڑ لیا تھا، لیکن انہوں نے اہلکاروں کو واپس کر دیا۔ انہوں نے کارکنان سے اپیل کی کہ وہ سکون سے واپس جائیں اور انہیں واپسی پر کھانے کا بندوبست بھی ملے گا۔تاہم، جب انہوں نے واپسی کی ہدایت کی، تو کارکنوں میں شدید غم و غصہ پیدا ہو گیا۔ کارکنوں نے وزیراعلیٰ کے فیصلے کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے واپسی سے انکار کر دیا اور احتجاج کیا کہ وہ واپس نہیں جائیں گے۔ کارکنوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔یہ صورتحال تحریک انصاف کے احتجاجی قافلوں میں اختلافات اور قیادت کے فیصلوں پر کارکنوں کی ناپسندیدگی کو نمایاں کرتی ہے۔