حکومتی کارروائیاں غیر قانونی اور سیاسی انتقام ہیں: علی امین گنڈاپور
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ایک اہم بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے پرامن سیاسی کارکنوں پر بے تحاشا شیلنگ اور فائرنگ کی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کئی کارکن زخمی ہوچکے ہیں، جنہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ گنڈاپور نے اس صورتحال کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا قافلہ برہان انٹرچینج کے قریب روک دیا گیا ہے، جہاں موٹر وے کو کھود کر بند کر دیا گیا ہے تاکہ انہیں اسلام آباد جانے سے روکا جاسکے۔علی امین گنڈاپور نے اپنے بیان میں کہا، "ہمارا قافلہ صوابی سے روانہ ہوا تھا اور ہم ڈی چوک پہنچنے کے لیے پرعزم ہیں۔ تمام رکاوٹوں کے باوجود ہم اسلام آباد کی جانب پیش قدمی کریں گے۔” انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ قافلے میں شامل کارکنان ہیوی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے راستے میں لگائی گئی رکاوٹیں ہٹا رہے ہیں۔ برہان انٹرچینج کے قریب پولیس نے قافلے کو روکنے کے لیے شیلنگ کی، جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔
دوسری طرف، اسلام آباد میں حالات مزید کشیدہ ہوچکے ہیں۔ ڈی چوک کو کنٹینر لگا کر مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے تاکہ مظاہرین کو وہاں پہنچنے سے روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ، اسلام آباد میں داخل ہونے والے اہم راستوں کو بھی کنٹینرز اور دیگر رکاوٹوں سے بند کر دیا گیا ہے۔ پولیس کی بھاری نفری ہر جگہ تعینات ہے اور کسی بھی غیر قانونی کارروائی کو روکنے کے لیے مستعد ہے۔فیض آباد چوک پر پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی، جس سے علاقے میں صورت حال مزید بگڑ گئی۔ اس جھڑپ میں کئی کارکن زخمی ہو گئے اور متعدد کو گرفتار کر لیا گیا۔راولپنڈی میں بھی صورتحال کشیدہ ہے، جہاں شمس آباد کے علاقے میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ یہاں بھی کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات ہیں اور اب تک درجنوں افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں، خاص طور پر بلیو ایریا جناح ایونیو پر چائنہ چوک کے مقام پر پی ٹی آئی کے کارکنوں پر مسلسل شیلنگ کی جا رہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات عوامی املاک کو محفوظ رکھنے اور قانون کی عملداری کو برقرار رکھنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
علی امین گنڈاپور نے حکومت کی ان سخت کارروائیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات سیاسی انتقام کے زمرے میں آتے ہیں اور انہیں کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے اور حکومت کو اپنے مخالفین پر طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ "ہم اپنے کارکنوں کی حفاظت کے لئے ہر ممکن اقدام اٹھائیں گے اور اپنے آئینی حق کے حصول کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے،” گنڈاپور نے واضح کیا۔
اس ساری صورتحال میں ملک بھر میں سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہو چکا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے مزید بڑھا سکتی ہے اور سیاسی بحران کو طول دے سکتی ہے۔ عوامی سطح پر بھی اس معاملے پر ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے، جہاں کچھ لوگ حکومت کی کارروائیوں کو ضروری سمجھتے ہیں، وہیں دوسری طرف کئی حلقے اسے سیاسی کارکنوں کے خلاف غیر ضروری تشدد قرار دے رہے ہیں۔سیاسی صورتحال کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ آیا حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی مذاکراتی عمل شروع ہوتا ہے یا پھر حالات مزید بگڑتے ہیں۔ علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کی جانب سے آئندہ کی حکمت عملی کیا ہوگی، اس پر بھی نظر رکھی جائے گی، جبکہ حکومت کا ردعمل اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا موجودہ کشیدگی کا خاتمہ جلد ممکن ہوگا یا نہیں۔