آئینی ترامیم کے حوالے سے حکومت کو نمبرز پورے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اہم آئینی ترامیم کے لیے پارلیمان اور سینیٹ میں مطلوبہ تعداد پوری کرنے کے لیے حکومت کو اپنے بیرون ملک دوروں پر موجود اراکین پارلیمنٹ کو فوری طور پر واپس بلانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ذرائع کے مطابق، حکومت نے اپنے تمام غیر ملکی دوروں پر گئے ہوئے اراکین پارلیمنٹ کو 15 اکتوبر تک وطن واپسی کی ہدایت جاری کر دی ہے تاکہ آئینی ترامیم کے اہم اجلاس میں ان کی شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔حکومتی ذرائع کے مطابق، اس وقت تقریباً 10 سے 15 حکومتی اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ ملک سے باہر موجود ہیں، جن میں اہم سیاسی شخصیات شامل ہیں۔ ان میں مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر طارق فضل چودھری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ بھی شامل ہیں۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر رانا محمود الحسن، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے دنیشن کمار اور سینیٹر عبدالقادر بھی بیرون ملک دوروں پر ہیں۔
یہ غیر موجودگی حکومت کے لیے آئینی ترامیم کی منظوری کے عمل میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔ آئینی ترامیم کے لیے مطلوبہ دو تہائی اکثریت کو یقینی بنانے کے لیے پارلیمان میں اراکین کی حاضری انتہائی ضروری ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ بیرون ملک موجود تمام ارکان 15 اکتوبر تک وطن واپس پہنچیں تاکہ آئینی ترامیم کے لیے اہم اجلاس میں ان کی شرکت یقینی بنائی جا سکے۔دوسری جانب اپوزیشن کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بھی بعض اہم اراکین بیرون ملک موجود ہیں۔ ان میں پی ٹی آئی کے ایم این اے ریاض فتیانہ اور سینیٹر فیصل سلیم بھی شامل ہیں، جن کی غیر موجودگی سے پی ٹی آئی کے لیے بھی آئینی ترامیم کی مخالفت میں ممکنہ طور پر مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
حکومت نے پارلیمان اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس کے لیے 18 اکتوبر کو اہم اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں مجوزہ آئینی ترامیم پیش کی جائیں گی۔ حکومتی اراکین کی فوری واپسی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے خصوصی انتظامات کیے ہیں تاکہ کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو اور ترامیم کو متفقہ طور پر منظور کیا جا سکے۔یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کے لیے آئینی ترامیم کی منظوری کا عمل نہ صرف سیاسی اعتبار سے اہم ہے بلکہ حکومتی کارکردگی اور حکومتی اراکین کی حاضری پر بھی منحصر ہے۔ اگر تمام ارکان بروقت واپس پہنچ جاتے ہیں تو حکومت کے لیے آئینی ترامیم کی منظوری کا عمل نسبتاً آسان ہو جائے گا، بصورت دیگر حکومت کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Shares: