حکومتی تکبر اور پاکستانیوں کے اٹھتے جنازے
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان میں مہنگائی، چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بھاری بجلی کے بل عوام کی زندگیوں کو مفلوج کر چکے ہیں۔ ایسے میں وفاقی وزیر توانائی اویس احمد خان لغاری کا حالیہ بیان عوامی غصے میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں اویس لغاری نے کہا کہ پاکستان میں بجلی اس لیے مہنگی ہے کیونکہ اس کا استعمال کم ہے اور جب تک استعمال نہیں بڑھے گا، نرخوں میں کمی ممکن نہیں۔ یہ بیان عوام کے لیے ناقابلِ قبول ہے کیونکہ بجلی ایک سہولت نہیں بلکہ ضرورت ہے اور عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ایسی منطق عام آدمی کی بے بسی کا مذاق اڑاتی ہے۔

اویس لغاری ناقص پالیسیوں اور غیر ذمہ دار بیانات کی وجہ سے عوامی نفرت کا محور بن چکے ہیں۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور اب انہیں بجلی کے بڑھتے نرخوں اور سلیب سسٹم کے جال میں الجھا دیا گیا ہے۔ موجودہ بل عوام کی قوتِ برداشت سے باہر ہو چکے ہیں اور لوگ متبادل توانائی ذرائع جیسے سولر پینلز کی طرف مجبوراً رجوع کر رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے مسلسل نرخوں میں اضافہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ محسوس ہوتا ہے۔

چینی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ بھی حکومت کی پالیسیوں میں تضاد کا واضح ثبوت ہے۔ اس وقت چینی کی قیمت 190 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے جو رواں مالی سال کے ابتدائی سات ماہ میں 7.57 لاکھ میٹرک ٹن چینی کی برآمدات کا نتیجہ ہے۔ اس فیصلے سے مقامی مارکیٹ میں قلت پیدا ہوئی اور قیمتوں نے آسمان کو چھو لیا۔ اب حکومت چینی درآمد کرنے جا رہی ہے، جس پر 55 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد ہوگی اور اس سے چینی کی قیمت 245 روپے فی کلو تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ عوام کو مہنگی چینی خریدنے پر مجبور کر کے شوگر مافیا کو ایک بار پھر اربوں روپے کا نفع کمانے کا موقع دیا جا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس پوری صورتحال کو "چینی سکینڈل” اور "قانونی کرپشن” قرار دیا جا رہا ہے۔ عوام کا ماننا ہے کہ یہ پالیسیاں کسی عوامی مفاد کی بنیاد پر نہیں بلکہ طاقتور گروہوں کے مفادات کی تکمیل کے لیے بنائی جا رہی ہیں۔ وزارتِ منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی خاموشی اور حکومتی مشینری کی بےحسی اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ ایلیٹ طبقہ شوگر مافیا کے سامنے بےبس ہے۔

دوسری جانب بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافے نے گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ چھوٹے کاروبار بڑھتے ہوئے بلوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہو چکے ہیں اور ایک ایک کر کے بند ہو رہے ہیں، جس سے بیروزگاری میں تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے۔ اویس لغاری کا دعویٰ کہ بجلی کی قیمتیں اس لیے بڑھ رہی ہیں کیونکہ اس کا استعمال کم ہے، عام شہری کے لیے ایک بے ربط اور غیر سنجیدہ جواز ہے۔ جب ماہانہ بجلی کے بل 10 سے 20 ہزار روپے تک جا پہنچیں تو کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے انہیں ادا کرنا کسی سزا سے کم نہیں۔

نیپرا کی طرف سے کی گئی معمولی کمی جیسے 99 پیسے فی یونٹ، اس شدید مہنگائی کے سامنے بے اثر دکھائی دیتی ہے۔ عوام اب خود کو بچانے کے لیے سولر پینلز کی طرف مائل ہو رہے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہو چکا ہے کہ ریاستی ادارے اب ان کے مالی مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں۔ یہ وہ فضا ہے جس میں اعتماد کا رشتہ ریاست اور شہری کے درمیان ٹوٹنے لگتا ہے۔

مہنگائی کا یہ طوفان صرف چینی اور بجلی تک محدود نہیں رہا۔ آٹا، دالیں، کوکنگ آئل، سبزی اور ایندھن کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ سکھر میں آٹے کی قیمت 160 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے، جب کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھا دیے ہیں، جس سے ہر شے کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

2025-26 کے وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو صرف 10 فیصد اضافہ دیا گیا لیکن جب مہنگائی کی شرح 12 سے 15 فیصد سے زائد ہو تو یہ اضافہ دکھاوا معلوم ہوتا ہے۔ نتیجتاً متوسط اور نچلے طبقے نے تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات پر خرچ کم کرنا شروع کر دیا ہے۔ دوسری طرف بجٹ میں دیہاڑی دار مزدور کو زندہ درگور کر دیا گیا ہے جو پہلے ہی بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ ہے، جس کے بچے سکول نہیں جا سکتے، جو بچوں کا علاج نہیں کرا سکتا۔ سرکاری ہسپتالوں میں غریب اور مزدور کے بچوں کو علاج کے بجائے موت کی نیند سلایا جا رہا ہے، جس کی تازہ مثال پاکپتن کے سرکاری ہسپتال میں گزشتہ ماہ ہونے والی بچوں کی 20 ہلاکتیں ہیں۔ اس کی انکوائری رپورٹ کچھ بھی ہو مگر غریب کے بچے تو مر گئے اور سوال یہ ہے کہ ان کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟

سوشل میڈیا عوامی غم و غصے کا آئینہ بن چکا ہے۔ روزانہ درجنوں پوسٹس میں یہ شکوہ دہرایا جا رہا ہے کہ حکومت مکمل طور پر مافیاز کے کنٹرول میں آ چکی ہے اور غریب آدمی کے لیے اس ملک میں جینا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

یہی بے بسی، یہی ناانصافی اور یہی مسلسل معاشی دباؤ وہ بنیادیں ہیں جو عوامی بےچینی کو تحریک میں بدلتی ہیں۔ حکومتی پالیسیوں میں شفافیت کا فقدان، ناقص منصوبہ بندی اور طاقتور طبقات کی خوشنودی پر مبنی فیصلے عوام کے صبر کو آزماتے جا رہے ہیں۔ چینی کی برآمدات کے بعد مہنگی درآمد، بجلی کے نرخوں میں من مانا اضافہ اور اویس لغاری جیسے وزراء کے غیر ذمہ دارانہ بیانات ، یہ سب مل کر اس نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔

اب ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوالات انگاروں کی طرح دہک رہے ہیں کہ غریب کے بچوں کے لیے سکولوں کے دروازے کیوں بند کر دیے گئے؟ کیا تعلیم اب صرف امیروں کی میراث بن چکی ہے؟ سرکاری ہسپتالوں میں مزدوروں اور عام شہریوں کے بچوں کو "علاج” کے نام پر موت کیوں دی جا رہی ہے؟ بجلی کے سلیب گرد بلوں میں جکڑے لوگ کب تک خودکشیاں کرتے رہیں گے؟ مہنگی چینی، آٹا، دال اور ادویات خریدنے کی سکت نہ رکھنے والے کب تک زندہ دفن کیے جاتے رہیں گے؟ آخر کب تک ہر مہینے کے اختتام پر گھروں سے مہنگائی کا مارا جنازہ نکلے گا؟

یہ سوالات صرف احتجاجی بینروں یا سوشل میڈیا پوسٹس کے نعرے نہیں ہیں بلکہ ایک مجبور قوم کی چیخیں اور اضطراب ہیں جو اپنے جینے کے حق کی بھیک مانگ رہی ہے۔ اور جب ایک قوم اپنے حقِ زندگی کے لیے سوال کرنا شروع کر دے، تو یہ وقت اربابِ اختیار کے لیے فیصلہ کن گھڑی ہوتا ہے۔ اب تاریخ خاموش نہیں رہے گی،حکومتی بے حسی اور تکبر کی وجہ کتنے پاکستانیوں کےمزید جنازے اٹھیں گے؟،یہ سوالات کبھی نہ کبھی جواب مانگیں گے اور اگر اقتدار کے ایوانوں میں سننے والا کوئی نہ ہوا تو پھر عوام خود اپنے خون سے جواب لکھیں گے۔حکومتی ارباب اختیار کو اس وقت سے ڈرنا چاہیئے ،جب وہ کچھ کرناچاہیں گے تو اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی اور آناََ فاناََ سب کچھ ملیامیٹ ہوجائے گا.

Shares: