حکومت جہلا کا کام نہیں بلکہ مشائخ عظام کا فرض،سراج الحق کا نظام مصطفی کے نفاذ کی تحریک شروع کرنیکا اعلان

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کے منصورہ میں علماءمشائخ کانفرنس سے خطاب کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا

امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ ہماری لڑائی کسی سیاستدان سے نہیں بلکہ اس استحصالی نظام سے ہے جس کی وجہ سے کرپٹ اور بددیانت لوگ اقتدارتک پہنچ جاتے ہیں ۔ عوام تعلیم ، صحت اور روزگار کی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ طبقاتی تعلیمی نظام سے چوکیدار اور کلرک پیدا کیے جارہے ہیں ۔ ملک پر عالمی مالیاتی اداروں کی حکومت ہے ۔ پی پی ، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی غلامی پر راضی ہیں اور غلامی کی یہی زنجیریں وہ قوم کو پہنانا چاہتے ہیں ۔موجودہ حکومت نے ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر بارہ قوانین بنائے یہ قوانین بنانے میں دونوں سابقہ حکمران جماعتوں نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا۔ حکومت جہلا کا کام نہیں بلکہ عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، علمائے کرام اور مشائخ عظام کا فرض ہے ۔ مشائخ عظام اور علمائے کرام بہت بڑی قوت ہیں ۔ خانقاہی نظام سے لاکھوں لوگ عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہ لوگ ظلم و جبر کے نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی ۔ ہم نے فریاد یا سینہ کوبی نہیں کرنی بلکہ قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے اسلامی و فلاحی پاکستان کی منزل کو حاصل کرناہے ۔ علمائے کرام و مشائخ عظام قوم کی قیادت کریں ۔ علماءو مشائخ کی قیادت میں ربیع الاول میں نظام مصطفی کے نفاذ کی تحریک شروع کریں گے ۔

ان خیالات کااظہار انہوںنے منصورہ میں اپنی میزبانی میں ہونے والی تحفظ ختم نبوت ، ناموس اہلیتؓ اور عظمت صحابہؓ ”علماءو مشائخ کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

کانفرنس سے علما ءمشائخ ، رابطہ کونسل کے چیئرمین خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ ، پیر سید ہارون گیلانی ، پیر غلام رسول اویسی ، پیر شفاعت رسول قادری ، محی الدین محبوب گیلانی ، امیر العظیم ، میاں مقصود ا حمد ،ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر برہان الدین رومی ، پیر اختررسول قادری ، پیر سید محبوب حسین گیلانی ، پیر سید علی رضا گیلانی ، پیر سید رضا شاہ ہمدانی نے بھی خطاب کیا ۔ کانفرنس میں ملک بھر کے معروف درباروں کے سینکڑوں گدی نشین حضرات و مشائخ عظام نے شرکت کی

سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ اس وقت امت مسلمہ بے شمار مسائل میں گھری ہوئی ہے اور عالم اسلام کے وسائل پر دشمن کا قبضہ ہے ۔ پاکستان ،جس نے عالم اسلام کی قیادت کرنا تھی ، اس پر مسلط جاگیر دار اور سرمایہ دار نظریہ پاکستان سے بہت دور چلے گئے ہیں ۔ لاکھوں لوگوں نے قیام پاکستان کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ اس لیے پیش نہیں کیا تھاکہ ملک چند ظالم جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں یرغمال بنارہے ۔ انہوںنے کہاکہ اقتدار پر مسلط دین بے زار لوگ جنہیں حلال و حرام کی تمیز ہے نہ سورہ فاتحہ تک درست پڑھ سکتے ہیں ۔ وہ نہیں چاہتے کہ یہاں قرآن و سنت کی حکمرانی ہو ۔ 74 سال میں یہاں ایک دن کے لیے بھی اسلامی نظام کو آزمایا نہیں کیا ۔ انہوںنے کہاکہ آج ملک کے بائیس کروڑ وام انصاف کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں مگر انہیں عدالتوں اور اداروں سے انصاف نہیں ملتا ۔ یہاں چار سو انسانوں کا قاتل بچ جاتاہے ۔ دن دہاڑے پکڑی گئی شراب کی بوتلیں شہد بن جاتاہے ۔ اڑھائی سو انسانوں کو زندہ جلانے والے آزاد پھرتے ہیں ۔ والدین کو بچوں اور بچوں کو والدین کے سامنے قتل کر دیا جاتاہے ۔ عدالتوں کا دروازہ سونے کی چابی سے کھلتاہے ۔ انہوںنے کہاکہ سود نے پوری معیشت کو تباہ کردیا ہے ۔ جس ملک کے بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے آٹھ سو ارب اور قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے 29 سو ارب رکھے جائیں ، وہاں معیشت کیسے سنبھل سکتی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ سود سے توبہ کر لی جائے تو معیشت بہتر ہوسکتی ہے ۔ سراج الحق نے کہاکہ علماءو مشائخ کو آگے بڑھ کر عاشقان رسول اور غلامان مصطفی کو متحد اور ملک میں نظام مصطفی کے نفاذ کے لیے جدوجہد کو تیز کرناہے ۔ انہوںنے کہاکہ اگر ملک میں نظام مصطفی نہیں تو عشق و محبت اور غلامی کے دعوے محض دعوے ہی رہیں گے ۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علماءو مشائخ کونسل کے چیئرمین خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ نے کہاکہ مشائخ عظام اور جماعت اسلامی مل کر ملک میں غلبہ اسلام کی منزل کو حاصل کر سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں مشائخ عظام اور جماعت اسلامی کو مل کر جدوجہد کرناہوگی ۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے 74 سال ضائع کر دیے اور بیش بہا قربانیوں کے بعد حاصل کیے گئے پاکستان میں آج بھی اللہ کے رسول کا نظام نہیں ۔ یہ بات طے ہوگئی ہے کہ ملک کا دشمن کون ہے اور اصل خیر خواہ کون ۔

کانفرنس کے اختتام پر جاری کیے گئے متفقہ اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ آج کی اس عظیم الشان کانفرنس میں پاکستان بھر کے ممتاز علمائے کرام اور نامور مشائخ عظام عقیدہ ختم نبوت پر اپنے غیر متزلزل ایمان و یقین کا اظہار کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں اعلان کرتے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت ﷺکا تحفظ ہمارے ایمان و عقیدہ کا اہم ترین حصہ ہے اور ان عقائد کے حوالہ سے آئین کے ہر آرٹیکل اور قانون کی ہر شق کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گاور اس سلسلہ میں ہر طرح کے غیر ملکی دباﺅ اور اندرونی سازشوں کا مل کر اور ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ پاکستان جو کہ 90فیصد مسلم آبادی پر مشتمل ہے ، اس ملک پاکستان کے اندراہل بیتﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے حوالے سے کسی بھی قسم کی ایسی گفتگو ، تحریر اشارتاً یا کنایةً کرنے پر پابندی لگائی جائے جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں۔ ہر قسم کی اجتہادی اور اختلافی آراءکو اپنے تئیںرکھتے ہوئے اتحاد و اتفاق اور مشترکہ مسائل کو موضوع بحث بنایا جائے تاکہ امت کے اندر اتحاد و اتفاق ، اخوت و محبت اور باہمی رواداری کی فضا قائم اور برقرار رہے۔ اس حوالے سے امت مسلمہ کے عظیم رہنما قاضی حسین احمد ؒ اور حضرت شاہ احمد نورانی ؒکے قول ” در د مشترک اور قدر مشترک “ کے سنہری اصول کو اپنایا جائے۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ مشائخ عظام اور صوفیا کی تعلیمات پر مبنی اسباق کو نصاب تعلیم سے خارج کرنا نہ صرف اغیار کی گہری سازش ہے بلکہ اس کے نتیجے میں معاشرے سے روحانیت کا خاتمہ یقینی ہے۔ لہٰذا مشائخ و صوفیا کی تعلیمات دینیہ کو نصاب میں شامل رکھا جائے۔ سرکاری سرپرستی میں اوقاف کے تحت چلنے والے مزارات اور دیگر مزارات میں شرعی حوالوں سے کئی دینی مفاسد کا ارتکاب ہوتا ہے۔ اس کا ازالہ فی الفور کیا جائے اور سرکاری و غیر سرکاری سرپرستی میں چلنے والی درگاہوں کو صرف دعوت و تبلیغ اور تزکیہ کے مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جائے۔ نیز یہ کانفرنس جامعہ محمودیہ پر محکمہ اوقاف کے قبضے اور غنڈہ گردی کی شدید مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ جامعہ محمودیہ کے نظم و نسق کوسینکڑوں سال سے چلانے والی انتظامیہ کے حوالے کیا جائے۔

جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ ” نظام مصطفیٰ ﷺ ہی ہم سب کا مطمع نظر اور زندگیوں کا مقصد ہے۔ ملک بھر میںہر سطح پر آپﷺ کی شریعت کے نفاذ کو عملی و یقینی بنایا جائے۔ “اس مقصد کے حصول کے لے اسلامی نظریاتی کونسل جیسے آئینی ادارے کی سفارشات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے سابق ایم ڈی رائے منظور ناصر کو 100کتابوں میں شامل صحابہ اکرام ؓاور سیرت رسول اللہﷺ کے حوالے سے گستاخانہ مواد کی نشان دہی پر ہٹانا کسی گہری سازش کا شاخسانہ ہے ،لہذا انہیں فوری بحال کیا جائے اور نصاب میں شامل تمام کتابوں کو از سر نو جید علماءکی نگرانی میں پرنٹ کروایا جائے ۔

یہ کانفرنس فلسطین ، مقبوضہ کشمیر، شام، عراق، روہینگیا سمیت پورے عالم اسلام کے انتہائی تشویشناک حالات کے تناظر میں اتحاد امت کو وقت کا اہم ترین تقاضا قرار دیتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں سیکولر طبقہ کی طرف سے آئین پاکستان کی اسلامی دفعات اور اسلامی معاشرت کے خلاف سازشوں اور مغرب کے بے حیا طرز زندگی کے لیے مطالبات کی اکا دکا کوششوں کے مقابلے میں تمام فروعی ، گروہی ، مسلکی اختلافات کو بالاتر رکھ کر اتحاد و اتفاق اور برداشت اور رواداری کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ کانفرنس قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکہ کی ظالمانہ قید میں 18سا ل مکمل ہونے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتی ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے فوری اور نتیجہ خیز کوششیں کرے۔

Shares: