حکومت بل کی آڑ میں علما کوآپس میں لڑوا ناچاہتی ہے، حافظ حمداللہ

سوال یہ ہے کہ بل کو مسترد کیوں کیا گیا
pdm

اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمداللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت بل کی آڑ میں علما کوآپس میں لڑوانا چاہتی ہے-

باغی ٹی وی : جے یو آئی رہنما حافظ حمد اللہ نے کہا کہ مدارس بل سینیٹ اوراسمبلی نے پاس کیا، مدارس بل پرسب نے اتفاق کیا تو اعترا ض کیا ہے پیپلزپارٹی نے بھی اس بل کو ایوان میں سپورٹ کیا تھا، سوال یہ ہے کہ بل کو مسترد کیوں کیا گیا، بل کی آڑ میں علما کوآپس میں لڑوانے کی کوشش ہو رہی ہے، حکومت کیوں علما کو اکٹھا کرکےفساد پھیلانا چاہ رہی ہے۔

دوسری جانب چار سدہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان ںے کہا کہ مدارس کے بل پر نواز شریف، آصف زرداری، سینیٹ، قومی اسمبلی سب متفق ہوگئے تھے، بل سینیٹ میں پیش ہوا، اسمبلی نے بل پاس مگر صدر نے دستخط کیے، اگر صدر دیگر بلز پر دستخط کرسکتا ہے تو اس مدرسہ بل کو اعتراضات کے ساتھ واپس کیوں بھیجا؟-

انہوں ںے کہا کہ آج نیا شوشا چھوڑا ہے کہ مدارس تو پہلے وزارت تعلیم کے ساتھ وابستہ تھے، بتانا چاہوں گا کہ اس مدارس بل میں ہم نے تمام مدارس کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ کسی بھی وفاقی ادارے کے ساتھ الحاق چاہیں تو کرلیں چاہے وہ 1860ء ایکٹ کے تحت ہو یا وزارت تعلیم، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہر مدرسہ آزاد ہے تو اعتراض کیسا؟

انہوں نے کہا کہ علما کو علما کے مقابل لایا جارہا ہے مدارس میں کوئی اختلاف نہیں ہے مدراس بل پر تمام علما و مدارس کا اتفاق ہے، نئے شوشے نہ چھوڑیں، علما کو تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے، آج ہم ایک حتمی اعلان کرنے جارہے تھے کہ مفتی تقی عثمانی اور صدر وفاق المدارس کی جانب سے اطلاع آئی کہ انہوں ںے 17دسمبر کو اہم اجلاس طلب کرلیا ہے ہم اپنے فیصلے و اعلان کو اس اجلاس تک روکتے ہیں اس اجلاس کے بعد متفقہ طور پر فیصلے کیے جائیں گے۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائے ہم قانون کی بات کررہے ہیں جب کہ وہ مدارس کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ماتحت کرنا چاہتے ہیں جب کہ مدارس کو قانون کے تحت ریگولرائزڈ کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن مدارس کی آزادی و خودمختاری کو اپنی جگہ قائم رکھنا چاہتے ہیں، ہم نے جب وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ ہو کر ان کی بات مانی تو انہوں نے ہم پر ایگز یکٹو آرڈر کے ذریعے ایک ڈائریکٹوریٹ مسلط کردیا یعنی وہ ہمیں ماتحت کرنا چاہتے ہیں جبکہ مدارس ان کے ماتحت ہونے کو تیار نہیں۔

انہوں ںے کہا کہ مدارس بل پر تو پاکستانی کے خفیہ ادارے بھی متفق تھے ان کے اتفاق رائے سے سارے معاملات طے ہوئے اگرچہ وہ نظر نہیں آتے مگر وہ موجود ہوتے ہیں رابطے میں رہتے ہیں ہمارا سوال یہی ہے کہ جب سب کچھ اتفاق رائے سے طے ہوا تو اب کیا ہوگیا؟ یہ ہے وہ بدنیتی، ہم جیت چکے ہیں پارلیمنٹ اس بل کو پاس کرچکی ہے، جو چیز طے ہوچکی ہے اسے مستحکم کرنا چاہتے ہیں ہمیں اس وقت تک حکومت کی کوئی تجویز قبول نہیں اگر انہوں ںے ہمیں اس میں ترمیم کرنے کے لیے کچھ دیا تو ان کی تجویز قبول کرنا تو دور کی بات ان کے مسودے کو چمٹے سے بھی پکڑنے کے لیے تیار نہیں۔

Comments are closed.