حالیہ سیریز کی شکست کا قصوروار کسی خاص پلیئر یا کسی ایک شعبے کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا تحریر:اسد عباس خان

0
37

25 اگست کو ساوٹھیمپٹن کے میدان پر جب وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان انگلش وکٹ کیپر جوس بٹلر کے ساتھ مشترکہ مین آف دی سیریز قرار پائے تو یہی ایک پاکستان کی واحد کامیابی تھی۔ تیسرے ٹیسٹ میں فالو آن ہونے کے باوجود میچ ڈرا کرنے والی ٹیم کے کپتان اظہر علی سیریز کی شکست سے یقیناً مایوس ہوں گے۔ فاتح کپتان جوئے روٹ کی خوش قسمتی کہیں یا مقابل ٹیم کی غیر ذمہ داری جب پہلے ٹیسٹ میں انگلش ٹیم نے یقینی شکست کو ناقابل یقین جیت میں بدل ڈالا اور سیریز جیتنے کے مستحق ٹھہرے ورنہ اظہر علی کی جگہ جوئے روٹ ناقدین کے تنقیدی نشتر سہ رہے ہوتے۔ مجموعی طور پر کھلاڑیوں سے زیادہ موسم کھل کر کھیلا لیکن جب کبھی بھی خاص طور پر مہمان ٹیم کے کھلاڑیوں کو گراؤنڈ میں اترنے کا موقع ملا تو انہوں نے بھی واپس پویلین لوٹنے میں دیر نہیں لگائی۔ جہاں بائیں ہاتھ کے اوپنر بیٹسمین شان مسعود سیریز کے اولین میچ کی پہلی اننگز میں شاندار سینچری اسکور کرنے کے بعد اچھے کھیل کا تسلسل برقرار نہ رکھ سکے۔ وہیں بابر اعظم جیسے ورلڈ کلاس کھلاڑی بھی پانچ اننگز میں کُل دو بار ہی پچاس کا آکڑا عبور کر پاۓ جو اتنے بڑے ٹیلنٹ کی شان کے سراسر خلاف ہے۔ آخری ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں انگلش ٹیم کی ناقص فیلڈنگ کے باعث دو بار آؤٹ ہونے سے بچ جانے والے کپتان اظہر علی 141 رنز کی اننگز کھیل کر وقتی ہی سہی لیکن ٹیم میں اپنی جگہ اور کپتانی بچانے میں کامیاب رہے۔ تجربہ کار بیٹسمین اسد شفیق اس پوری سیریز میں مکمل فیل نظر آۓ۔ اس کے علاوہ ایک دہائی کے طویل انتظار کے بعد ٹیم میں واپسی کرنے والے مڈل آرڈر بیٹسمین فواد عالم کی بدقسمتی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اب اگر باؤلنگ کی طرف آئیں تو سیریز کے اختتام پر کچھ نقاد تجزیہ نگار (تقریبا) اس نو مولود فاسٹ باؤلنگ کو انگلینڈ کا دورہ کرنے والی اب تک کی کسی بھی پاکستانی ٹیم کا کمزور ترین باؤلنگ اٹیک کہ رہے ہیں، لیکن اس بات میں وزن نہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں تیز ترین 200 وکٹیں حاصل کرنے والے تجربہ کار اسپنر یاسر شاہ کے ساتھ دھیمی رفتار کے مالک محمد عباس نہ صرف وکٹوں کی سینچری مکمل کرنے کے قریب ہیں بلکہ اپنی نپی تلی لائن اور لینتھ سے عالمی کرکٹ میں اپنا ایک منفرد نام بھی بنا چکے ہیں۔ جبکہ بائیں ہاتھ کے تیز گیند باز شاہین شاہ آفریدی کے ساتھ نسیم شاہ بھی غیر معمولی ٹیلنٹ کے حامل ہیں۔ لیکن جب حالیہ سیریز میں کارکردگی کا جائزہ لیں تو ماسوائے یاسر شاہ کے تمام فاسٹ باؤلر واقعی آف کلر نظر آۓ۔ تین ٹیسٹ میچز میں مجموعی طور پر 29 انگلش کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے میں یاسر شاہ کی وکٹوں کی تعداد 11 رہی۔ جبکہ محمد عباس اور شاہین شاہ آفریدی کے حصے میں 5،5 اور اٹھارہ سالہ نوجوان نسیم شاہ نے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ سیریز کی شکست کا قصوروار کسی خاص پلیئر یا کسی ایک شعبے کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ جہاں بیٹسمینوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا وہیں ناقص کپتانی کے ساتھ خراب باؤلنگ بھی اس ہار میں برابر کی شریک رہی۔
سرخ بال کے کھیل میں پریشان کن اختتام کے بعد اب سفید رنگ کی گیند سے ایک نئی سیریز کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ محدود دورانیے کے کھیل میں نہ صرف کھیل کا فارمیٹ تبدیل ہوگا بلکہ کپتان اور کھلاڑی بھی تبدیل ہوں گے۔ ٹی 20 پاکستان کا پسندیدہ فارمیٹ ضرور سہی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سیریز کا نتیجہ بھی تبدیل ہو پائے گا۔۔ ؟؟؟؟؟

صدائے اسد
اسد عباس خان

Leave a reply