ہم ردعمل کا شکار ہی کیوں ہوں ؟ کیا ہم میں عقل خرد سمجھ بوجھ نہیں رہی جو ہم کسی کے عمل کے ردعمل کی بنیاد پر فیصلہ سازی کریں؟ کسی کا کنویں میں کودنا ہمارے لیے کب سے کودنے کی دلیل بن گیا؟ جو جس نے جتنا غلط کیا اسکی سزا خود کو دینا کسی صورت دانش مندی کا تقاضہ نہیں۔ وائرس پہلے بھی تھا ، اب بھی ہے اور ان کے ان جلوسوں سے یقیناً بڑھے گا اور اسکے ردِعمل کا شکار ہم ہونگے تو پھلے پھولے گا جسکا نتیجہ پوری قوم بھگتے گی،
وائرس نا رکا تھا نا رکا ہے، کسی کے جاننے والے کو ہوا یا نہیں سے اب اکثر کو یہ لگ چکا ہے، اب ہر طبقہ میں اسکے متاثرین موجود ہیں، اس کو سنبھالنے کے لیے حکومتی وسائل اب ناکافی ہوچکے، قرنطینہ مراکز بھر چکے، اب یہ آپ پر ہے آپ ردِعمل کا شکار ہوکر سب سے پہلے خود، اپنی فیملی، حلقہ احباب ، ملک و قوم کو اسکا شکار بناتے ہیں یا عقلمندی و خرد کا مظاہرہ کرتے ہوئے جزباتیت اور ردعمل کا شکار ہوئے بغیر احتیاطی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے سب کی حفاظت کے ضامن بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حکمت و دانائی کو بروئے کار کر درست فیصلوں اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین