گزشتہ برس بھارت میں کسانوں کی ایک تحریک نے زور پکڑا تو ہمارے میڈیا سمیت ملک پاکستان کے مالکان سب نے ان کے لیے ہمدردی اور حمایتی بول بولے۔ مگر آج پاکستان کا کسان سڑکوں پر ہے۔تو ہمارے اندر اس قدر ہمدردی کیوں نہیں نظر آرہی ہے ۔جو 2021 میں بھارتی کسانوں کے لیے نظر آئی تھی۔اسلام آباد میں ہزاروں کسان کھاد اور بیج کی وافر مقدار میں فراہمی، گندم کی خریداری کی امدادی قیمت میں اضافے اور ڈیزل و بجلی کی قیمتوں میں کمی جیسے مطالبات کے لیے سڑکوں پر ہیں۔

پاکستان کا کسان ایک لمبے عرصے سے صرف ظلم ہی سہتا آرہا ہے۔بلند و بانگ دعوے ہر سیاسی جماعت نے کیے۔مگر کسان کے ہاں خوشحالی اتنی ہی آئی ہے۔ جتنی اس ملک میں جمہوریت۔۔۔۔۔نہ زرداری، نہ نواز وشہباز اور نہ عمران نے کسانوں کے لیے کوئی ایسا میکانزم اور لائحہ عمل تیار کیا۔ جس سے وہ خوشحال ہو سکیں۔ کھاد کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ، لاکھوں روپے میں بجلی کے بل، آسمان کو چھوتی ڈیزل کی قیمتیں، کسانوں کی خود کشی کے مترادف ہیں۔

ہر آنے والے انتخابات سے پہلے ایسے ایسے دعوے کیے جاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ اب تو اچھے دن آنے والے ہیں۔ ایسے ایسے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں کہ لگتا ہے۔ کہ سبز کھیتوں میں کام کرنے والا کسان اب تو ضرور خوشحال ہوگا۔ اس کی مشکلات کم اور آسانیوں میں اضافہ ہوگا۔ مگر آسانیوں میں اضافے کی بجائے ، مشکلات اس قدر بڑھا دی گئی ہیں کہ وہ اب سڑکوں پر نکلنے کو مجبور ہوگیا ہے ۔اپنے کھیتوں کو چھوڑ کر وہ آج سڑکوں پہ ہیں۔ تہذیب انسان کا وارث ، ملک کے شہریوں کا پیٹ بھرنے والا، آج اگر اپنے پیٹ کی خاطر سڑکوں پر ہے۔ تو یہ پوری قوم کےلیے افسوس کی بات ہے ۔شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے تو کسان کو حق نہ ملنے پر ، کھیت و کھلیان جلا دینے جیسے الفاظ اپنے اشعار میں لکھے ہیں۔

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

شاید علامہ اقبال جانتے تھے کہ کسان پر ظلم ہوگا۔ پوری دنیا کا پیٹ بھرے گا مگر اپنا پیٹ بھرنے کےلیے اس کو ٹھوکریں کھانی پڑیں گی۔
کسی دور میں کسان ہی معاشرے کا سب سے خوشحال فرد ہوتا تھا ۔مگر آج کسان کے حالات اس قدر پسماندہ ہوچکے ہیں کہ گزر بسر مشکل ہوگیا ہے۔

گندم کی بالیاں ہی وہ بیٹی کو دے سکے
مالک میرے کسان کے کھیتوں کی خیر ہو

ہم کیسے بھول گئے ہیں کہ یہی کسان ہمارا پیٹ بھرتا ہے۔ ہماری بھوک مٹانے کے لیے دن بھر کھیتوں میں محنت کرتا ہے۔ زمین کا سینہ چیر ہمارے لیے غذا اگاتا ہے۔ یہ خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔ یہ خوشحال ہوگا تو ہمارے پیٹ بھریں گے۔

یہ ہری کھیتی، ہرے پودے، ہرا رنگ چمن
تم سے ہیں آباد یہ کہسار یہ کوہ ودمن

خوں پسینے سے بہت سینچا ہے یہ صحن چمن
تم اگر آباد ہو، آباد ہیں گنگ و جمن

Shares: