ہمارا تعلیمی نظام اور معیارِ زندگی
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
پاکستان کا نظامِ تعلیم آج بھی بنیادی ضروریات اور جدید تقاضوں سے کوسوں دور ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ اگر کوئی نوجوان بی ایس ٹیکسٹائل یا سافٹ ویئر انجینئرنگ کر بھی لے تو وہ عملی میدان میں مؤثر کارکردگی نہیں دکھا پاتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کا معیار صرف ڈگری کے حصول تک محدود ہو چکا ہے۔ تعلیمی منصوبہ سازوں اور ذمہ داران کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ہم نئی نسل کو کیسی تعلیم دے رہے ہیں۔
پاکستان کا تعلیمی نظام طویل عرصے سے تنقید کی زد میں ہے۔ اس نظام نے نسلوں کو نہ صرف فکری طور پر الجھایا ہے بلکہ عملی زندگی میں بھی ناکامی کا سامنا کروایا ہے۔ ایک طالبعلم اگرچہ میٹرک، انٹر، بی اے، ایم اے، ایم فل یا پی ایچ ڈی جیسی اعلیٰ اسناد حاصل کر لے، حتیٰ کہ سافٹ ویئر یا ٹیکسٹائل انجینئرنگ جیسے فنی شعبوں میں مہارت بھی رکھتا ہو، تب بھی وہ خوداعتمادی، پیشہ ورانہ قابلیت اور فکری پختگی کے بحران کا شکار نظر آتا ہے۔
یہ نظام اب بھی نوآبادیاتی دور کی باقیات کو ڈھوتا آ رہا ہے۔ آج بھی بیشتر سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں رٹا سسٹم رائج ہے، جو بچوں کی ذہنی نشوونما کو محدود کرتا ہے۔ نہ تنقیدی سوچ کو فروغ دیا جاتا ہے، نہ تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری کی جاتی ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے محض اسناد تقسیم کرنے کے مراکز بن چکے ہیں۔ مضمون فہمی، عملی تربیت اور تحقیق کی افادیت کہیں نظر نہیں آتی کیونکہ تعلیم اب ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہو چکی ہے اور تعلیمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ہمارا نصابِ تعلیم عملی زندگی سے کٹا ہوا ہے۔ جو کچھ طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے، وہ زندگی کے حقائق سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جب ایک نوجوان ڈگری لے کر عملی دنیا میں قدم رکھتا ہے تو نہ اس کے پاس مطلوبہ مہارت ہوتی ہے، نہ زبان پر عبور اور نہ ہی کسی شعبے کی جامع فہم۔ وہ صرف ایک ڈگری کا لفافہ تھامے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان بیروزگاروں کی فوج میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
جب تعلیم روزگار کی ضمانت نہ ہو، جب اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مایوسی اور فرسٹریشن کا شکار ہوں، جب تعلیمی ادارے صرف ڈگری ہاؤسز بن جائیں تو معاشرے میں معیارِ زندگی کی بہتری کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ غربت، بیروزگاری، ذہنی امراض، جرائم اور معاشرتی بے چینی جیسے مسائل اسی تعلیمی نظام کی ناکامی کا شاخسانہ ہیں۔
ایک طرف ایلیٹ کلاس کے لیے مہنگے نجی سکول اور جامعات موجود ہیں جہاں جدید نصاب، تحقیق، تربیت اور سہولیات میسر ہیں جبکہ دوسری طرف عوام کے بچے ایسے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں جو بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ یہ طبقاتی تفاوت نہ صرف معاشرتی ناہمواری کو جنم دیتا ہے بلکہ ایک تقسیم شدہ اور غیرمنصفانہ نظام کو بھی مضبوط کرتا جا رہا ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم نصاب کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ ہمیں ایسے مضامین کو شامل کرنا ہوگا جن میں ٹیکنالوجی، فری لانسنگ، کاروباری مہارتیں، ماحولیات اور شہری شعور شامل ہوں۔ معیاری تعلیم کے لیے اساتذہ کو جدید تدریسی طریقوں کی تربیت دینا ضروری ہے، تاکہ وہ طلبہ کو محض تھیوری نہیں بلکہ عملی میدان کے لیے بھی تیار کر سکیں۔
سکول کی سطح سے انٹرن شپ اور پراجیکٹ بیسڈ لرننگ کو فروغ دیا جائے۔ سرکاری سکولوں میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ انفراسٹرکچر، سہولیات اور تدریسی معیار بہتر ہو سکے اور ہر طبقے کو یکساں تعلیمی مواقع مل سکیں۔ ہمیں تعلیم کو اس سطح پر لانا ہوگا جہاں غریب و امیر کی تفریق ختم ہو جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ تکنیکی اور ووکیشنل تعلیم کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہر بچہ یونیورسٹی جانے کی بجائے کسی ہنر میں مہارت حاصل کر سکے اور باعزت روزگار کما سکے۔
پاکستان کی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ہمارا تعلیمی نظام جدید، ہم آہنگ اور عملی تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہو۔ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری کا حصول نہیں بلکہ ایک باشعور، باہنر اور باوقار شہری کی تیاری ہونا چاہیے۔ جب تک ہم اپنی تعلیم کو اس نصب العین کے مطابق ڈھالنے میں ناکام رہیں گے، ہمارا معیارِ زندگی پست ہی رہے گا۔ قوموں کی تقدیر بدلنے کے لیے تعلیم کا حصول سب کے لیے یکساں، معیاری اور عملی ہونا ضروری ہے۔