امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ غزہ کا انتظام سنبھال لے۔

وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ غزہ کا انتظام سنبھالے گا اور اس پر کام کرے گا۔ وہ غزہ کی ترقی کے خواہش مند ہیں اور وہاں کے عوام کے لیے نئے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ غزہ ایک خوبصورت علاقہ ہے جسے دوبارہ تعمیر کرنا اور وہاں ہزاروں ملازمتیں پیدا کرنا ایک شاندار منصوبہ ہوگا۔ تاہم، انہوں نے اس بات کی تفصیل نہیں بتائی کہ وہ کس طرح غزہ پر کنٹرول حاصل کریں گے۔ ٹرمپ نے امریکی فوج کو غزہ بھیجنے کے امکان کو مسترد بھی نہیں کیا اور کہا کہ اگر ایسا ضروری ہوا تو امریکہ یہ قدم اٹھا سکتا ہے۔

اس تجویز پر فلسطینی اتھارٹی اور عرب لیگ کے ممالک جیسے مصر، اردن اور سعودی عرب نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ اس طرح کے منصوبے سے خطے میں مزید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے اور یہ تنازعے کو مزید بڑھا سکتا ہے۔

ٹرمپ کی اس تجویز کو فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے بھی سختی سے مسترد کیا ہے۔ حماس کے ترجمان خالد قدومی نے اسلام آباد میں تنظیم اسلامی کے سیمینار سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی مداخلت اور دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ دوبارہ بنے گا اور پہلے سے زیادہ مضبوط بن کر ابھرے گا۔

حماس کے عہدیدار سمیع ابو زہری نے ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان کو "مضحکہ خیز اور غیر معقول” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے خیالات خطے میں مزید تنازعہ اور آگ بھڑکا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے حقوق پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور فلسطینی عوام اپنی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔

امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان پر سابق امریکی پالیسی مشیر طارق حبش نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ حبش نے ٹرمپ کی غزہ سے متعلق تجویز کو نسل کشی کی توثیق قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو غزہ کے بارے میں فیصلے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور یہ امریکی مفاد میں نہیں ہے۔

یہ صورتحال اس وقت اور پیچیدہ ہو گئی جب اسرائیل اور فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ہوا اور لاکھوں فلسطینی غزہ کے جنوبی علاقوں سے شمالی علاقوں میں واپس جانے لگے۔ ان فلسطینیوں کو جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونا پڑا تھا۔غزہ کے مستقبل کے بارے میں اس بیان پر مختلف عالمی رہنماؤں اور تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل آ رہا ہے اور یہ ممکنہ طور پر خطے میں مزید تنازعات کا باعث بن سکتا ہے۔

Shares: