ہمیں رسم جمہوریت نے زیادہ مارا مذہبی منافرت نے کم
ازقلم غنی محمود قصوری
غالباً 31 اکتوبر 2018 کا دن تھا اور میرا فیملی ٹور تھا سوات کیلئےہم دو سگے بھائی اور دو کزن گاڑی میں بیٹھے اور انتہائی مشکلات کیساتھ لاہور ٹھوکر نیاز بیگ انٹرچینج پہ پہنچے کیونکہ ہمارے نکلنے سے تھوڑی دیر پہلے ہی ایک مذہبی سیاسی جماعت کی طرف سے احتجاج شروع ہو چکا تھا جو کہ دیکھتے ہی دیکھتے شدت اختیار کر چکا اور جلاؤ گھیراؤ تک بات پہنچ چکی تھی-
قصور سے ٹھوکر نیاز بیگ پہنچنے تک محض چار پولیس ناکے تھے مگر آج وہ پولیس ناکے تو نا تھے مگر کم و بیش 47 رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کیا گیا راستہ گلیوں بازاروں کے بیچ سے طے کیا اور محض 50 منٹ کا راستہ 5 گھنٹوں میں طے ہوا خیال یہی تھا کہ موٹر وے محفوظ ترین ٹریک ہے وہ بند نا ہوا ہو گا مگر جب انٹرچینج پہ پہنچے تو صورتحال انتہائی گھمبیر اور پریشان کن تھی جلاؤ گھیراؤ جاری تھا اور آوازیں سنائی دے رہی تھیں-
مسافر گاڑیوں میں ڈرے سہمے بیٹھے تھے کیونکہ پیچھے کی جانب جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا کیونکہ شہر لاہور کی قسمت کہ زیادہ تر جلاو گھیراؤ یہی سے شروع ہوتا ہےیعنی ہمارے گلے میں وہ ہڈی پھنس چکی تھی جسے نا تو نگل سکتے تھےنا ہی اگلی رات 8 بجے موٹر وے پہ پہنچے تو موٹر وے پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا جس سے کچھ تحفظ کا احساس ہوا-
میں اپنی گاڑی سے نکل کر موٹر وے پولیس کی گاڑی کے پاس پہنچا جہاں وائرلیس سیٹ پہ ہوئی گفتگو سے صورتحال کا اندازہ ہو رہا تھا جس سے پریشانی بڑھتی ہی جا رہی تھی خیر اب تو سوائے صبر کے کچھ نا ہو سکتا تھارات تقریباً ایک بجے کے قریب پولیس وائرلیس سیٹ سے آواز سنی کہ 22 ونگ رینجرز از موونگ ٹورڈ بابو صابو انٹرچینج یعنی رینجر کی 22 ونگ صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے موٹر وے پہ پہنچ رہی ہے یہ الفاظ سن کے دل کو قرار آیا کہ چلو اب بات بنے گی-
خیر صبح فجر سے کچھ دیر پہلے رینجرز نے کنٹرول کرکے موٹر وے پولیس کو منتقل کیا تو موٹر وے پولیس نے سفر کی اجازت دی ہم جب بابو صابو انٹرچینج پہ پہنچے تو کلیجہ منہ کو آ گیا مسافر گاڑیوں،بسوں کو آگ لگی ہوئی تھی اور گاڑیاں چیخ چیخ کہ بتا رہی تھیں کہ ان پہ خوب زور آزمائی ہوئی ہےموٹر وے پہ ایک جانب مظاہرین کا ساؤنڈ سسٹم بمعہ چنگچی رکشہ اور موٹر سائیکلیں بکھری ہوئی پڑی تھیں اور سڑک کے ایک جانب بہت سارے جوتے بھی جو کہ غالباً رینجرز کے پہنچنے پہ مظاہرین چھوڑ بھاگے تھے-
ہم نے رک کر ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو پنجاب پولیس نے بڑی سختی سے آگے بڑھنے کو کہا گجرانوالہ،و چکری انٹر چینج پہ بھی جلتی گاڑیاں بتا رہی تھیں کہ ان پہ خوب غصہ نکلا ہے ہم نے برق رفتاری سے اپنا سفر جاری کیا اور مردان سے انٹرچینج لیا کیونکہ اس وقت سوات تک موٹر وے ابھی زیر تعمیر تھی-
مردان شہر میں داخل ہوئے تو سارا شہر بند تھا مجبوراً گاڑی تخت بھائی شہر میں لے گئے جہاں تخت بھائی کے مین بازار کو بند کیا گیا تھا مجبوراً واپس مڑے اور تخت بھائی کے کھیتوں کھلیانوں سے سفر کرتے ہوئے مینگورہ ( سوات) شہر پہنچے اور ہلکی پھلکی کشیدگی کی بو پا کر گاڑی کالام کی جانب موڑ لی مگر زیادہ دیر ہونے کے باعث وادی بحرین میں قیام کیا صبح سویرے کالام کیلئے روانہ ہوئے کیونکہ
سوات میں برف باری شروع ہو چکی تھی اور کالام کا ٹمپریچر منفی 3 تک گر چکا تھا –
تقریباً 40 کلومیٹر کی چڑھائی والا سفر طے کرکے ہم کالام پہنچے اور ہوٹل لے کر کالام ہوٹل کے ٹیرس پہ باربی کیو شروع کیا تاکہ تھکاوٹ بھی دور ہو اور گرمائش بھی ملےمیں نے ساتھیوں سے کہ کہا کہ نماز عشاء پڑھ لوں اور پھر آکر کر کھانا کھاؤں گا میں ہوٹل سے نکل کر کالام میں واقع کئی دہائیوں سال پہلے بنی تاریخی لکڑی سے بنی مسجد میں میں نماز پڑھنے چلا گیا جہاں مولانا سمیع الحق کی شہادت کی اطلاع ملی-
مولانا صاحب کی شہادت کی خبر سن کر آنکھیں نمک ناک ہوئیں اور مجھے 2016 میں اسلام آباد کے ایک جلسے میں ان سے ہاتھ ملانے کا منظر یاد آ گیامیں نے بڑے پیار سے مولانا صاحب کی جانب ہاتھ بڑھایا تو مولانا صاحب نے بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا تھا اور بلکل بھی احساس نا ہونے دیا کہ وہ ایک بہت بڑے عالم دین و سیاست دان ہیں-
پورا صوبہ خیبرپختونخوا خاص کر مینگورہ سوات مکتبہ دیوبند کا گڑھ ہے سو مولانا سمیع الحق کی شہادت پہ یہ گمان ہوا کہ اب یہاں بھی حالات کشیدہ ہونگے مگر بفضل ربی کوئی واقعہ پیش نا آیا-
مولانا کی شہادت پہ میں سوچنے پہ مجبور ہو گیا کہ ان کی شہادت سے قبل معروف سیاستدان و سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی وفات پہ پاکستان کا برا حال کیا گیا تھا اور اب کی بار اگر مولانا سمیع الحق کی جگہ کوئی معروف سیاستدان ہوتا تو یقیناً ان کی وفات پہ بہت بڑا ہنگامہ کھڑا کیا جاتا کیونکہ ہمارے ہاں یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ اپنے لیڈر کی ایک کال پہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے اور اگر کوئی پارٹی کارکن حکم ربی سے طبعی موت بھی مر جائے تو اس پہ سیاست کرتے ہوئے ملک کے امن و امان کو برباد کرکے عوام کا نقصان کیا جاتا ہے –
ماضی قریب و موجودہ ہنگاموں کو دیکھتے ہوئے میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ ہمیں رسم جمہوریت نے زیادہ مارا ہے اور مذہبی منافرت نے کم مولانا سمیع الحق رحمتہ اللہ کی چوتھی برسی پہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے آمین-