کیا حمزہ یوسف پاکستان کا سربراہ بن سکتا ہے؟

hamza

کیا حمزہ یوسف پاکستان کا سربراہ بن سکتا ہے؟

سکارٹ لینڈ کے پہلے مسلم سربراہ پاکستانی نژاد حمزہ یوسف نے حلف اٹھا لیا اور اپنے فرائض سرانجام دینا شروع کردئیے ہیں۔ سکارٹ نینشل پارٹی سے تعلق رکھنے والے 37 سالہ حمزہ یوسف کو اپنی جماعت کے علاوہ سکاٹش گرینز پارٹی کے ارکان کی بھی حمایت حاصل ہوئی۔ وہ برطانیہ کی بڑی سیاسی جماعت کی قیادت کرنے والے پہلے مسلمان ہیں۔ اس سے قبل سعیدہ وارثی بھی کنزویٹو پارٹی کی 2010 سے 2012 تک شریک چئیرمین رہ چکی ہیں۔

حمزہ یوسف کے والد مظفر یوسف کا تعلق پنجاب کے علاقے میاں چنوں (خانیوال) سے ہے انہوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسکاٹ لینڈ منتقل ہوگئے جہاں بطور اکاونٹنٹ کام کیا۔ حمزہ یوسف کی والدہ کینیا میں رہائش پذیر ایشائی خاتون شائستہ بھٹہ ہیں۔ 1985 میں پیدا ہونے والے حمزہ یوسف نے گلاسگو یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ پاکستانی نژاد حمزہ یوسف دس سال قبل اپنے آبائی علاقے ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ ان کے رشتے دار اور عزیز و اقارب خوشی منا رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہی حمزہ یوسف پاکستان کے سربراہ بن سکتے ہیں؟

پاکستان میں حمزہ یوسف جیسی شخصیات کا وزیراعظم بننا تو بہت مشکل رکن قومی اسمبلی منتخب ہونا بھی قدرے مشکل ہوگا۔ پاکستانی قوم ویسے بہت جذباتی ہے پاکستانی نژاد شخصیات کی ترقی پر خوش ہوتے ہیں۔ امیدیں وابستہ کرتے ہیں دنیا بھر میں اپنے جھنڈے گاڑے مگر وہی پاکستان میں جمہوریت کے لئے آواز بلند نہیں کرتے۔ پاکستان میں بھوک اور افلاس کی ایک وجہ سیاسی عدم استحکام اور غیر سیاسی افراد کی سیاست میں مداخلت ہے۔ ریاست اور سیاست کے اس کھیل میں چونا صرف عوام کو لگتا ہے۔

بنیادی جمہوریت نہ ہونے اور سیاسی جماعتوں میں اشرافیہ کا کنٹرول اور موروثی قیادت کسی طور پر بھی مڈل کلاس قیادت کو منتخب نہیں ہونے دے گی۔ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی کے ایک رکن نے بتایا کہ سینیٹ میں ووٹ کے لئے 10 کروڑ روپے کی آفر ہوئی۔ان حالات میں متوسط طبقہ تو کیا کاروباری طبقے سے منسلک لوگ بھی اس کھیل میں شامل نہیں ہوسکتے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پارٹیاں اس طرح ٹکٹ تقسیم کرتی ہیں اللہ کی پناہ۔ گزشتہ حکمران جماعت تحریک انصاف پر الزام ہے کہ2018 کے انتخابات کے لئے دو دو کروڑ تک کے ٹکٹ بیچے گئے۔ جب پارٹی ٹکٹ کی قیمت یہ ہوگی تب انتخابات جیتنے کے لئے 50 کروڑ روپے لگائے جائیں گے۔ اور ایک حلقے میں اگر تین مضبوط امیدوار ہوں تو 1 ارب 50 کروڑ روپے اوسطا خرچ ہونگے۔ ان حالات میں جیتنے یا ہارنے والا اتنی بڑی انوسٹمنٹ کو پورا کرنے کے لئے ہر جائز اور ناجائز طریقہ اپنائے گا وہاں حمزہ یوسف تو کہی گم ہو جائے گا۔

یہاں بھی ہر شہر میں حمزہ یوسف موجود ہیں۔ وہ سیاسیات کی ڈگری بھی حاصل کرتے ہیں اور سیاسی جماعتوں میں بطور کارکن کام بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی حمزہ یوسف نوجوانی میں پارٹی پرچم تھامے چلتے ہیں مگر جب انتخابات کی باری آتی ہے تو ان حمزہ یوسفوں کے اوپر پیسے والے مسلط ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی حمزہ یوسف کسی سیاسی جماعت کا چیف آرگنائزر بن بھی جائے تو وقت آنے پر اس حمزہ یوسف کو اتار کر وہاں اس پارٹی کے قائد کی بیٹی یا بیٹا بیٹھ جاتا ہے۔ ہم بھی کیا اپنے دکھ لے کے بیٹھ گئے بھائی حمزہ یوسف آپ کو بہت مبارکباد شکر ہے آپ پاکستان میں نہیں ہیں ورنہ آپ کھبی بھی پاکستان کے وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ اسکاٹ لینڈ کی ترقی کے لئے آپ کے قدم مبارک ہوں۔ اور پاکستان میں بھی اللہ تعالیٰ ایسی قیادت نصیب فرمائے اور پاکستان میں بھی عام آدمی کو وزیراعظم تک کے سفر میں آسانی فرمائے۔

Comments are closed.