حق سے محروم بہنیں — ڈاکٹر عدنان خان نیازی

میرے ایک دوست نے اپنے سکول میں کچھ اساتذہ کو بھرتی کرنا تھا تو انٹرویوز والے دن مجھے بھی بلا لیا۔ صرف دو اساتذہ کو رکھنا تھا لیکن بہت سے لوگ انٹرویو دینے آئے ہوئے تھے۔ ایک ایک کر کےہم انھیں بلا رہے تھے۔ ساتویں آٹھویں نمبر پر ایک لڑکی حدیقہ انٹرویو دینے آئی تو ایسی علیک سلیک ہوئی جس سے مجھے لگا کہ یہ ایک دوسرے کو اچھے سے جانتے ہیں اس لیے اس انٹرویو میں میں خاموش رہا۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ایک دوسرے کے کلاس فیلو رہ چکے تھے۔

رسمی سلام دعا کے بعد دوست نے کہا کہ آپ کو اس جاب کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ اس تنخواہ میں تو آپ کا ایک سوٹ بھی نہیں آئے گا۔
حدیقہ نے کہا کہ اب وہ یونیورسٹی والا دور نہیں رہا جب میں بڑی سی گاڑی میں آتی تھی۔ اب میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
میرے دوست نے حالات کا مزید پوچھا کہ آپ کے والد کی تو بہت زیادہ زمینیں تھیں، بنگلے کوٹھیاں اور گاڑیاں۔۔۔ ان سب کا کیا ہوا کہ آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

کہنے لگی، تب میرے والد صاحب زندہ تھے، وہ میرے سارے نخرے اٹھاتے تھے اور میرا خیال بھی رکھتے تھے۔ میری ہر خواہش بھی پوری کرتے تھے۔ ایم فل کے آخری سال میں تھی تو والد صاحب ایک حادثے میں وفات پا گئے۔ والد صاحب کے بعد ساری دولت اور جائیداد دونوں بڑے بھائیوں کے پاس آگئی۔ مجھے بڑی مشکل سے آخری سمسٹر کے امتحانات دینے کی اجازت ملی۔

پھر میری تعلیم مکمل ہونے کے بعد مجھے اپنے گھر میں تقریباً قید رکھا گیا۔ وہاں ہر سہولت میسر تھی لیکن نہ باہر نکل سکتی تھی نہ کسی سے بات چیت کی اجازت تھی۔ والدہ صاحبہ کو میری حالت پر ترس آتا تھا لیکن انھیں بھی یہ تھا کہ جائیداد صرف بیٹوں کو ہی ملنی چاہیے۔ کئی بار میرے بھائیوں نے مجھے والد صاحب کی وراثت سے محروم کرنے کے لیے کاغذات پر دستخط کروانے کی کوشش کی لیکن میں نے ہر بار انکار کیا۔ اس پر مجھے تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح کئی سال گزرے۔ میری عمر ڈھلنے لگی، والدہ صاحبہ بھی وفات پا گئیں تو میری ہمت بھی جواب دے گئی۔ مجھے اس گھر سے اب وحشت ہونے لگی تھی۔

بالآخر میں نے ہار مان لی اور ساری وراثت سے دستربردار ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد ایک غریب رشتہ دار کےساتھ میری شادی کر کے مجھے اپنی آبائی حویلی سے بھی نکال دیا گیا۔ غریب شخص کا انتخاب اس لیے کیا گیا تاکہ میرے پاس کبھی اتنے پیسے نہ ہوں کہ میں ان کے خلاف کوئی مقدمہ لڑ سکوں۔ لیکن میں نے اپنا مقدمہ اب یہاں کسی عدالت میں نہیں لڑنا ، نہ ہی مجھے میری زندگی میں انصاف مل سکتا ہے۔ ہاں ایک عدالت آخرت میں ہونی ہے، اس میں اللہ میاں سے یہ ضرور کہوں گی کہ جیسے ان دونوں نے مجھے میرے حق سے محروم رکھا ہے، انھیں بھی اپنی رحمت سے محروم رکھ۔

حدیقہ خاموش ہوئی تو کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ شاید کسی میں کچھ کہنے سننے کی بھی ہمت نہیں رہی تھی۔ سب بس بمشکل آنسو ضبط کیے بیٹھے تھے۔

چند لمحے بعد میرے دوست نے کہا کہ آپ کا ایک بھائی تو خاصا مذہبی تھا۔اور چھوٹا لبرل تھا جس سے اکثر یونیورسٹی میں اس موضوع پر بحث بھی ہوجاتی تھی۔

حدیقہ نے میرے دوست کی بات پوری ہونے سے بھی پہلے کہا، جی میں نے بڑے بھائی کو اسلامی حوالے بھی دیے اور کہا تھا کہ آپ کے حج اور عمرے کا آپ کو کیا فائدہ جب آپ میرا حق دبا کے بیٹھے ہیں۔

چھوٹے لبرل بھائی سے بھی کہا کہ آپ خواتین کے حقوق کے علمبردار ہیں لیکن اپنی بہن کو اس کا جائز حق دینے کے حق میں بھی نہیں۔ آپ کے لبرلزم میں تو میرا تیسرا حصہ بنتا ہے جبکہ آپ مجھے پانچواں حصہ بھی دینے کو تیار نہیں۔

لیکن اس جائیداد والے معاملے میں مذہبی ہوں یا لبرل، سارے مرد ایک جیسے ہیں۔ خواتین کو جائیداد میں حصہ دیتے سب کو موت پڑتی ہے۔

پتہ نہیں کتنی حدیقائیں اپنے ہی بھائیوں کی لالچ کی وجہ سے اپنے حق سے محروم ہوتی رہیں گی۔ کیا کوئی بھی شخص مال و دولت کو اپنے ساتھ قبر میں لے کر گیا ہے؟ پتہ نہیں لوگ یہ کیسے کر لیتے ہیں کہ جان چھڑکنے والی بہنوں کو بھی ان کے جائز حصے سے محروم کر کے خوش رہتے ہیں۔ایسے لوگ خود کو عذابِ قبر اور جہنم سے کیسے بچا پائیں گے؟

Comments are closed.