کبھی الفاظ روشنی کے مینار ہوا کرتے تھے—حق و باطل کے درمیان لکیر کھینچنے والے، بیداری کی صدا، انقلاب کی نوید۔ مگر آج، یہ الفاظ اپنی روح کھو چکے ہیں۔ وہ جو کبھی ضمیر کو جھنجھوڑتے تھے، آج سنسنی خیزی اور تجارت کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ سچائی اور دانش کی جگہ مقبولیت اور وائرل ہونے کی صلاحیت نے لے لی ہے۔

آج تقریریں گونجتی ہیں، سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتے ہیں، اور سیاسی بیانات شہ سرخیوں میں جگہ پاتے ہیں، مگر ان میں سے اکثر حقیقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ جو الفاظ جتنے چکاچوند ہوں، وہی زیادہ مقبول ہوتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی کھوکھلے کیوں نہ ہوں۔

کیا ہم سب ذمہ دار نہیں؟

یہ سوال کسی فردِ واحد کے لیے نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

جب ہم بغیر تصدیق کے خبریں آگے بڑھاتے ہیں، تو کیا ہم الفاظ کے ساتھ ناانصافی نہیں کر رہے؟

جب ہم دلیل کی بجائے نعرے بازی اور تعصب کو فروغ دیتے ہیں، تو کیا الفاظ کا قتل نہیں کرتے؟

جب ہم سننے اور سمجھنے کے بجائے صرف بولنے پر زور دیتے ہیں، تو کیا مکالمے کو دفن نہیں کر رہے؟

ایک تحقیق کے مطابق، 70 فیصد لوگ بغیر تحقیق کے خبریں شیئر کر دیتے ہیں۔ مباحثے دلیل کی بجائے جذباتی ردِعمل پر مبنی ہوتے ہیں، اور اختلاف کو دشمنی میں بدل دیا جاتا ہے۔ یہی رویہ الفاظ کو بے اثر اور بے قدر کر دیتا ہے۔

تاریخی پس منظر

الفاظ کے اثرات ہمیشہ سے واضح رہے ہیں۔

امام غزالی نے اپنی تصانیف میں الفاظ کے ذریعے فکری انقلاب برپا کیا۔

مارٹن لوتھر کنگ نے اپنی تقریروں کے ذریعے نسلی امتیاز کے خلاف تحریک چلائی۔

قائداعظم محمد علی جناح کی مدلل گفتگو اور الفاظ نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ ریاست کے قیام کے لیے یکجا کر دیا۔

مگر آج، الفاظ کی وہ حرمت باقی نہیں رہی۔ جو چیز پہلے اصلاح کا ذریعہ تھی، اب صرف تفریح اور پروپیگنڈے کا آلہ بن چکی ہے۔

نتائج اور خطرات

اگر الفاظ اپنی طاقت اور اثر کھو دیں تو یہ صرف زبان و بیان کا نقصان نہیں، بلکہ یہ معاشرتی زوال کی علامت بن جاتا ہے۔

✅ جب الفاظ بے اثر ہو جائیں تو سچائی دب جاتی ہے اور جھوٹ غالب آ جاتا ہے۔
✅ جب الفاظ محض نعرے بن جائیں تو معاشرے میں فکری مفلسی پھیلتی ہے۔
✅ جب اختلاف کو دشمنی بنا دیا جائے تو علمی ترقی رک جاتی ہے۔

مثال:

سوشل میڈیا پر جھوٹے بیانات یا جعلی خبروں کے ذریعے پوری قوم کو گمراہ کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ 2016 کے امریکی انتخابات میں دیکھا گیا، جہاں جھوٹی خبروں نے رائے عامہ پر گہرا اثر ڈالا۔

بھارت میں "WhatsApp لنچنگ” جیسے واقعات میں جعلی خبروں کی بنیاد پر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

یہی رویہ ہمارے معاشرے میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ آج کا نوجوان کتابوں سے دور ہو چکا ہے۔ وہ تحقیق سے زیادہ سوشل میڈیا پوسٹس پر یقین رکھتا ہے۔ وہ اپنی رائے بنانے سے پہلے گہرائی میں جانے کی زحمت نہیں کرتا۔ یہی رویہ سیاست، صحافت اور عام زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔

حل کیا ہے؟

اگر ہمیں الفاظ کو ان کی اصل طاقت واپس دلانی ہے، تو ہمیں چند بنیادی تبدیلیاں کرنی ہوں گی:

✔ سچائی کو معیار بنانا ہوگا، نہ کہ مقبولیت کو۔
✔ مطالعے اور تحقیق کی عادت ڈالنی ہوگی، تاکہ ہر لفظ حقیقت پر مبنی ہو۔
✔ بغیر تصدیق کے معلومات پھیلانے سے گریز کرنا ہوگا، تاکہ الفاظ جھوٹ کا شکار نہ ہوں۔
✔ جذباتی نعروں کے بجائے دلیل اور منطق کو فروغ دینا ہوگا، تاکہ معاشرے میں شعور پیدا ہو۔
✔ مکالمے کی ثقافت کو زندہ کرنا ہوگا، تاکہ اختلاف دشمنی کے بجائے سیکھنے کا ذریعہ بنے۔

مثال:

فن لینڈ میں میڈیا لٹریسی کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا گیا تاکہ نوجوان جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کو سمجھ سکیں۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے ہمیشہ ذمہ دار الفاظ کا استعمال کیا اور بحران کے دوران سچائی کو ترجیح دی۔

حدیثِ مبارکہ:

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: "آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پہنچا دے۔” (مسلم)

یہ حدیث آج کے دور میں خاص طور پر قابلِ غور ہے، جہاں غیر مصدقہ اطلاعات کا سیلاب سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق ختم کر چکا ہے۔

اختتامیہ

اگر الفاظ بے توقیر ہو جائیں تو سوچنے کی صلاحیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اور جب معاشرے میں غور و فکر ختم ہو جائے، تو پھر صرف اندھی تقلید اور جذباتی اشتعال باقی رہ جاتا ہے۔

"الفاظ کی عزت وہی معاشرے کر سکتے ہیں، جہاں سچائی اور علم کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔”

اگر ہم الفاظ کی حرمت کو بحال نہیں کریں گے، تو ایک ایسا وقت آئے گا جب سچائی، حکمت اور دلیل صرف کتابوں میں رہ جائیں گے، مگر عملی زندگی سے غائب ہو جائیں گے۔

سوچنا ہوگا، سمجھنا ہوگا، اور پھر بولنا ہوگا—تاکہ الفاظ پھر سے زندہ ہو سکیں اور ان کی تاثیر لوٹ آئے۔

Shares: