بنگلہ دیش،حسینہ واجد کے گھر پرمظاہرین کا حملہ،گھر جلا کر گرا دیا
ڈھاکا میں ہزاروں مظاہرین نے بنگلا دیش کی مفرور سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے آبائی گھر پر حملہ کر کے اسے جلا دیا اور بعد میں کرین کی مدد سے گرا دیا۔
بنگلادیشی عوام نے انڈیا کے ساتھ ملکر شیخ مجیب کی 1971 میں کی جانے والی سازش کی ایک بار پھر تسخیح کر دی ، بدھ 5 فروری کی رات بنگلادیشی عوام نےدھانمنڈی 32 میں واقع شیخ مجیب الرحمان کی یادگار اور رہائش گاہ پر دھاوابولا،عوامی ہجوم نے شیخ مجیب الرحمان کی یادگار اور رہائش گاہ میں توڑ پھوڑ کی،عوامی ہجوم کی جانب سے عوامی لیگ پر پابندی کا بھی مطالبہ کیا گیا، منظر عام پر آنے والی ویڈیوز میں گھر کی ایک منزل پر آگ کے شعلے دکھائی دے رہے تھے
مقامی میڈیا کے مطابق،”سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی آن لائن تقریر کے بعد عوامی لیگ کے خلاف احتجاج شروع ہوا”،”سوشل میڈیا پر مطالبہ کیا گیا تھا کہ "اگر شیخ حسینہ آن لائن تقریر کرتی ہیں توشیخ مجیب الرحمان کی دھانمنڈی 32 میں واقع رہائش گاہ کی طرف "بلڈوزر جلوس” لے جایا جائے”
رات 8 بجے کے قریب مظاہرین ایک ریلی کی شکل میں شیخ مجیب کی رہائش گاہ پہنچے،عوام مین گیٹ کو توڑتے ہوئے زبردستی اندر گھس گئی،مظاہرین نے رہائش گاہ میں موجود شیخ مجیب الرحمان کی تصاویر کو بھی نذ ر آتش کردیا،امتیازی سلوک مخالف اسٹوڈنٹ موومنٹ کے کنوینر حسنات عبداللہ نے فیس بک پر پوسٹ کیاکہ:
"آج رات، بنگلہ دیش کی سرزمین فاشزم سے آزاد ہو جائے گی”،مظاہرین نے اس موقع پر کہا کہ ’’شیخ مجیب الرحمان کا خاندان آمریت اور فسطائیت کی علامت ہے‘‘،بنگلہ دیش سے مجیب ازم کے فاشزم کے ہر نشان کو مٹا دیا جائے گا،مظاہرین کی جانب سے شیخ حسینہ واجد کو واپس لا کر پھانسی دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا،”دیگر شخصیات، بشمول انقلاب منچہ کے کنوینر اور جاتیو ناگورک کمیٹی کے رکن شریف عثمان ہادی نے بھی حملے کی وارننگ پوسٹ کی”،
"گزشتہ سال5 اگست کوبھی مظاہرین نے شیخ مجیب کی رہائش گاہ پر حملہ کیا اور کچھ حصےکو آگ لگا دی تھی”یہ گھر بنگلہ دیش کی تاریخ میں ایک علامتی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ شیخ مجیب نے یہاں سے نام نہاد تحریک آزادی کی قیادت کی تھی،شیخ حسینہ کے دور حکومت میں اسے ایک عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا تھا، جہاں عالمی رہنما سرکاری پروٹوکول کے تحت دورہ کرتے تھے،بنگلہ دیش میں انقلاب اور حکومتی تبدیلی کے بعد سے شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ تاحال زیرعتاب ہے،شیخ حسینہ کیخلاف عوامی غصہ اب بھی برقرار ہے اور عوام کی جانب سے احتجاج کیے جاتے ہیں،
واضح رہے کہ شیخ حسینہ واجد گزشتہ برس ملک میں ہونے والے پرتشدد احتجاج کے بعد بنگلا دیش سے فرار ہو کر بھارت منتقل ہو گئی تھیں۔ بنگلا دیش کی عبوری حکومت نے متعدد بار بھارت سے شیخ حسینہ کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔مظاہرین کا یہ حملہ شیخ حسینہ واجد کے خلاف بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی اور عوامی غم و غصے کا حصہ دکھائی دیتا ہے، جس نے بنگلا دیش میں ایک نیا سیاسی بحران جنم دے دیا ہے۔
ٹرمپ نے خواجہ سراؤں کو خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے سے روک دیا