دنیا کے ہر کونے میں پاکستانی نوجوان اپنی صلاحیتوں، جد و جہد اورعزم سے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ انہی نوجوانوں میں ایک نمایاں نام ہے لاہور کے رہائشی 25 سالہ پاکستانی مصنف حسن صدیقی کا ، جنہوں نے محدود وسائل کے باوجود عالمی ادب کے افق پر پاکستان کا پرچم بلند کیا۔ حسن صدیقی اُن گنے چنے پاکستانیوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے قلم کو انسانیت، ہمدردی اور امید کے پیغام کا ذریعہ بنایا، اور دنیا کو دکھایا کہ اصل قومی ہیرو وہی ہوتے ہیں جو علم و اخلاق کے ذریعے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔
Cupertino Library میں پہلا پاکستانی مصنف
حال ہی میں حسن صدیقی نے ایک اور نمایاں عالمی اعزاز اپنے نام کیا۔ اُن کی کہانی "A Hope for One Homeless” کو 10 اکتوبر 2025 کو World Homeless Day کے موقع پر امریکہ، کیلیفورنیا کی معروف عوامی لائبریری Cupertino Library میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ لائبریری Silicon Valley کے علمی و ثقافتی مراکز میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور Apple کے عالمی ہیڈکوارٹر کے قریب واقع ہونے کے باعث دنیا بھر میں اپنی شہرت رکھتی ہے۔
یوں حسن صدیقی وہ پہلے پاکستانی مصنف بن گئے جن کا کام اس نمایاں امریکی ادارے میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ ایک غیر معمولی اعزاز ہے جو نہ صرف اُن کی صلاحیتوں بلکہ پاکستان کے تخلیقی نوجوانوں کی قوتِ ارادی کا مظہر ہے۔
ادبی سفر کا آغاز، ماں کی جدائی اور کم عمری کی ذمہ داریاں
حسن صدیقی کی زندگی کا سفر آسان نہ تھا۔ محض 14 سال کی عمر میں اُن کی والدہ کا انتقال ہو گیا، جس کے بعد زندگی نے اُنہیں وقت سے پہلے بڑا کر دیا۔ کم عمری میں گھریلو ذمہ داریاں اور تعلیمی تقاضے ایک ساتھ نبھانا اُن کے لیے ایک مشکل مرحلہ تھا، مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ اُن کے والد ایک فرنیچر کی دکان پر کام کرتے ہیں، اور محدود آمدنی کے باوجود انہوں نے ہمیشہ بیٹے کے خوابوں کو جینے دیا۔ یہی وہ ماحول تھا جہاں سے حسن صدیقی نے سیکھا کہ اصل کامیابی وسائل سے نہیں، عزم سے حاصل ہوتی ہے۔ مایوس کن حالات اور محدود وسائل کے باوجود، انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے وہ کر دکھایا جس کا بہت سے لوگ خواب دیکھتے ہیں۔
کینٹربری کیتھیڈرل میں عالمی اعزاز
اس سے قبل دسمبر 2024 میں، حسن صدیقی کی کہانی “A Christmas Homeless” برطانیہ کے عظیم تاریخی و ثقافتی ورثے کینٹربری کیتھیڈرل میں نمائش کے لیے پیش کی گئی، جو یونیسکو کے عالمی ورثہ میں شامل ہے۔ یہ کہانی دسمبر 2024 سے مارچ 2025 تک وہاں نمایاں طور پر آویزاں رہی۔ یہ اعزاز صرف اُن کی ذاتی کامیابی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لیے فخر کا لمحہ تھا، کیونکہ وہ اس عالمی شہرت یافتہ مقام پر نمایاں ہونے والے پہلے پاکستانی مصنف بنے۔
حسن صدیقی کی اس کامیابی کو متعدد بین الاقوامی اداروں نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا, جن میں برطانوی حکومت (7 جولائی 2025)، یونیسکو (20 جولائی 2025)، اقوامِ متحدہ (19 اگست 2025)، اور برطانوی ہائی کمیشن پاکستان (20 مئی 2025) شامل ہیں۔ یہ تسلیم شدہ اعزاز اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ پاکستانی نوجوان بھی عالمی ادب کے افق پر نمایاں مقام حاصل کر سکتے ہیں۔
وطن میں خاموشی کیوں؟
جب ایک نوجوان اپنی تحریر سے دنیا بھر کے قارئین کے دل جیت لے، عالمی تنظیمیں اس کے کام کو سراہیں، تو یہ لمحۂ فخر ہونا چاہیے۔ لیکن پاکستان میں جب ایسے نوجوانوں کو نظرانداز کر دیا جائے تو یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آخر ہمارے قومی ہیرو کب پہچانے جائیں گے؟
ادب، فن اور ثقافت کسی قوم کا چہرہ ہوتے ہیں۔ اگر ایک مصنف اپنے الفاظ سے دنیا میں انسانیت، ہمدردی اور اخلاق ک پیغام پھیلا رہا ہے تو یہ پوری قوم کے لیے باعثِ عزت ہونا چاہیے۔
ورلڈ اسکالرز کپ اور عالمی ادبی پلیٹ فارمز میں نمایاں کامیابیاں، NASA
حسن صدیقی کی علمی اور تخلیقی صلاحیتیں صرف ادبی دنیا تک محدود نہیں ہیں، انہوں نے NASA سے مضمون نویسی میں اعترافی سرٹیفکیٹ حاصل کیا، جبکہ World Scholars Cup میں تحقیق اور تحریر کے شعبے میں گولڈ میڈلسٹ کے طور پر نمایاں کارکردگی دکھائی، ان کی تحریریں Spillwords Press، Illumination، Storymaker اور دیگر بین الاقوامی ادبی پلیٹ فارمز پر شائع ہو چکی ہیں اور ان کی کتاب Twenty Bright Paths: Stories of Growth & Learning امریکہ میں شائع ہوئی، جسے نوجوان قارئین نے بے حد سراہا، اور یہ حسن صدیقی کو عالمی سطح پر ایک باصلاحیت پاکستانی مصنف کے طور پر متعارف کروانے کا سبب بنی۔
خواتین کے لیے آواز: “The Female Times”
حسن صدیقی صرف ایک مصنف نہیں بلکہ ایک سماجی شعور رکھنے والے لکھاری بھی ہیں۔ وہ دی فیمل ٹائمز کے بانی ہیں ، ایک غیر منافع بخش ڈیجیٹل میگزین جو خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کی آواز کو بلند کرنے کے لیے وقف ہے۔یہ پلیٹ فارم اُن خواتین کے لیے امید کی کرن ہے جنہیں اپنی کہانیاں سنانے کے مواقع کم ملتے ہیں۔ حسن صدیقی کا ماننا ہے کہ معاشرے میں حقیقی تبدیلی اسی وقت ممکن ہے جب خواتین اپنی بات خود کہہ سکیں اور اپنی جدوجہد کو کھلے عام پیش کر سکیں۔
حکومتی اعتراف اور قومی فخر کی ضرورت
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنے لکھاریوں اور دانشوروں کو قومی ہیرو کا درجہ دیتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ لوگ اُن کے ملک کی پہچان ہیں۔ لیکن پاکستان میں جب کوئی نوجوان عالمی سطح پر کامیاب ہوتا ہے تو اکثر سرکاری سطح پر خاموشی چھا جاتی ہے۔
حسن صدیقی کی مسلسل عالمی کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں۔ اگر حکومت ایسے مصنفین کو سرکاری اعزازات، مالی معاونت، اور سرپرستی فراہم کرے تو یہ پاکستان کے عالمی تشخص کو مضبوط کرے گا۔حسن صدیقی نے ثابت کیا ہے کہ وطن کے حقیقی سفیر وہی ہوتے ہیں جو عمل، اخلاق، اور علم سے دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ وہ آج بھی اس یقین کے ساتھ لکھ رہے ہیں کہ ایک دن پاکستان بھی اُن کی کاوشوں کو تسلیم کرے گا ، کیونکہ قومی ہیرو ہمیشہ اپنی قوم کے لیے لکھتے ہیں، چاہے قوم اُنہیں کب تسلیم کرے۔