کیا عرب ہمت ہار چکے ؟…..عاصم مجید لاہور

0
55

متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی خبر کے ساتھ ہی پاکستان بھر میں اور کئی مسلمان ممالک میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔

پاکستان میں ایک چھوٹا سا طبقہ ایسا بھی ہے جو اس عمل کو درست قرار دے رہا ہے اور پاکستان کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد بتا رہا ہے۔ ان کے مطابق کئی مسلمان ممالک ڈھکے چھپے انداز میں اسرائیل کے ساتھ روابط رکھ کر کئی معاشی فائدے حاصل کر رہے ہیں۔ جیسا کہ ترکی اور اسرائیل کی تجارت ہرسال بڑھتے ہوئے کئی ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔

ان کے علاوہ ایران ، اومان اور قطر بھی اسرائیل کے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔ بقول ان کے آپ فلسطین کے ساتھ یکجہتی رکھیں اور اسرائیل کے مظالم کی مذمت کرتے رہیں جیسا کہ ترکی اور ایران ہر فورم پر کرتے ہیں مگر معاشی فوائد بھی حاصل کریں۔

مگر دوسرا طبقہ متحدہ عرب امارات کے اس اقدام سے پورے عرب ممالک کو امت سے نکالنے پر تلا ہوا ہے۔حالانکہ بہت سارے لوگ جانتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات میں اصل حکومت اور کنٹرول مغربی ممالک کا ہی ہے۔ اس میں ہر طرح کی غیر اسلامی آزادی ہے۔ اور اہل علم جانتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور گوادر پورٹ کو ناکام کرنے کے لیے فنڈنگ کہاں کہاں سے ہو کر آتی رہی ہے۔ اب اگر بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی ہے تو اس میں حیرانگی والی کیا بات ہے ؟

آئیں اب فلسطین کے لیے دی گئی اپنی قربانیوں پر نظر دوڑا لیں۔ کیا ہم نے فلسطین کے لیے اسرائیلی مصنوعات کو چھوڑ دیا ہے؟
کیا ہم نے پیپسی ، کوکا کولا، میکڈونلڈ، کے ایف سی اور شیل پٹرول کا بائیکاٹ کر دیا ہے ؟

اگر نہیں کیا تو برائے مہربانی کسی پر فتوی نہ لگائیں۔ اگر آپ اتحاد امت میں کردار ادا نہیں کر سکتے تو اختلافات بڑھانے کا ذمہ خود پر نہ لیں۔اگر آپ سمجھتے ہیں فلاں ملک منافق اور کفار سے مل گیا ہے تو برائے مہربانی سیرت رسول ﷺ بھی پڑھ لیں۔
کیا رسول اللہ ﷺ کو تمام منافقین کے ناموں کا پتہ نہیں تھا؟ اور وہ منافقین مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے بھی رہتے تھے آپ ﷺ چاہتے تو ان تمام منافقوں کے سر قلم کروا سکتے تھے۔ مگر آپ ﷺ نے حکمت سے کام لیا۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن سترَ مُسلِمًا سترَهُ اللَّهُ في الدُّنيا والآخِرةِ
(صحيح ابن ماجه، 2544)
ترجمہ: "جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا۔”
ایک اور نقطہ پر بھی ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تقریبا 40 لاکھ کے قریب پاکستانی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کام کرتے ہیں اور سالانہ 9 بلین ڈالر کے قریب زرمبادلہ پاکستان میں بھیجتے ہیں۔
یہ تمام لوگ جو بیرون ملک میں کام کر رہے ہیں ہیں ان میں سے زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جو کہ اپنے پورے خاندان کی کفالت کر رہے ہیں۔

میرے قابل احترام بھائیو امت کو متحد کرنے کے لئے ہمارا کردار کیا ہونا چاہیے یہ ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا۔ اگر تو ہم اتحاد امت کی بات کرتے ہیں تو ہمیں الزامات کی سیاست سے نکلنا ہو گا۔ ہاں ہم منفی جملے کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔ مگر اس طرح ہم شاید کئی مزید لوگوں کو مسلمان ملکوں سے متنفر کر دیں گے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ کفار چاہتے ہیں کہ مسلمان ملکوں کو آپس میں لڑایا جائے۔ کہیں ہم اپنے جملوں یا اپنی تحریروں سے کفار کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ؟
آئیں اتحاد امت کے لئے احسن طریقے سے مسلمانوں اور مسلمان ملکوں کے سربراہان کو سمجھائیں۔ ان کی ہدائت کے لئے اللہ کے آگے سربسجود ہو کر دعا کریں۔
اللہ تعالی ہمیں اتحاد امت میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

کیا عرب ہمت ہار چکے ؟…..عاصم مجید لاہور

Leave a reply