حیاء کا کلچر عام کرو تحریر: سحر عارف
شرم و حیاء کو اسلام میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ آج کچھ لوگوں نے حیاء لفظ کے معنی ہی بدل دیے ہیں اور اس لفظ کو عورت کی ذات تک محدود کردیا ہے۔ جبکہ حقیقت کچھ یوں ہے کہ حیاء کا تعلق صرف عورتوں سے ہی نہیں بلکہ مردوں سے بھی ہے۔ آج کے دور کے مردوں نے اس لفظ سے ناواقفیت اختیار کر لی یے۔ کچھ بھی ہو جائے کہیں کوئی عورت جنسی زیادتی کا نشانہ بنے یا اسے حراساں کیا جائے تو بہت سے مونہوں سے ایک بات نکلتی ہے کہ عورت پردہ کرے۔
جب عورت پردہ نہیں کرے گی اور گندے سے گندہ لباس پہنے گی تو مرد کی نظریں تو خود ہی اٹھیں گی۔ جیسے حیاء دار ہونا صرف عورت کے لیے ضروری ہے مرد کا تو اس لفظ سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ایسے ذہن کے مالک مردوں کے لیے میں بتاتی چلوں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم خود بہت شرم و حیاء والے تھے اور وہ ہمیشہ دوسروں کو بھی اس کا درس دیتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کے اسلام میں عورتوں کو حکم ہے کہ وہ پردہ کریں اپنے چہرے اور جسم کو نامحرموں سے چھپائے تاکہ کوئی اس پر بری نگاہ نا ڈال سکے۔ اسی طرح مردوں کے لیے بھی حکم ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھتے ہوئے ان کی حفاظت کرے تاکہ کسی عورت کے لیے تکلیف کا باعث نا بن سکے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے کہ:
"مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کری، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے بے شک اللّٰہ ان کے کاموں سے خبردار ہے” (النور: 30)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح مردوں کے لیے بھی شرم و حیاء کے احکامات موجود ہیں۔ پر افسوس آج کے دور میں بےحیائی عام سے عام ہوتی چلی جارہی ہے۔ عورت مرد سے بڑھ کر جبکہ مرد عورت سے بڑھ کر بےحیائی کا دلدادہ ہوتے ہوئے تمام حدیں پار کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ شرم و حیاء کا جو درس قرآن وحدیث میں دیا گیا ہے کیا آج ہم اس پر عمل کررہے ہیں؟ تو جواب ہے نہیں۔
کیونکہ اسلام میں مردوں اور عورتوں کو یہاں تک حکم دیا گیا ہے کہ عورت نامحرم مردوں اور مرد نامحرم عورتوں کو ایک نگاہ تک نا ڈالیں اور اگر پہلی نگاہ غلطی سے اٹھ بھی جائے تو معافی ہے پر دوسری بار نگاہ ڈالنے سے منع کیا گیا یے۔ حضرت جریر بن عبداللّٰہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر اچانک سے کسی نامحرم عورت پر نظر پڑھائے تو کیا حکم ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی نظر پھیرلو، اگر اچانک نظر پڑھ جائے تو معافی ہے لیکن اگر جان بوجھ کر نگاہ اٹھائی تو گناہ ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ جو خواتین کو ان کی نگاہوں کی حفاظت کا درس دیتا ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ ” حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس تھی اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس حضرت میمونہ بھی تھیں تو سامنے سے حضرت عبداللّٰہ بن ام مکتوم (جو نابینا تھے) تشریف لائے یہ واقعہ پردے کے حکم سے بعد کا ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں پردہ کرو، میں نے عرض کیا یا رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کیا یہ نابینا نہیں؟ رسول پاک نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو انہیں نہیں دیکھتی ہو” (امن ابو داؤد، جلد نمبر سوم، حدیث نمبر 720)
اب مرد و عورت کے لیے شرم و حیاء کو اپناتے ہوئے اپنی نگاہوں اور اپنی ذات کی خود حفاظت کرنا کس قدر ضروری ہے اس میں کوئی دو رائے ہے ہی نہیں۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اسے اسلام کی بنیاد پر حاصل کیا گیا لیکن کیا آج ہم لوگ یہاں اسلام کے مطابق زندگیاں گزار رہے ہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں ہمارے ملک سے بےحیائی کا خاتمہ کرنا ہوگا اور یہ صرف ایک دو چار لوگوں سے ممکن نہیں اب سب کو مل کر اس بےشرمی اور بے حیائی کلچر کے خلاف اپنے حصے کی شمع جلانی ہوگی۔
@SeharSulehri