تل ابیب: تل ابیب میں ہزاروں افراد نےاحتجاجی مظاہرے کے دوران اسرائیلی وزیراعظم اور حکومت کے خلاف سخت نعرے بازی کرتے ہوئے نیتن یاہو کو ہٹاکر نئے انتخابات کا مطالبہ کردیا۔
باغی ٹی وی : روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق مرکزی تل ابیب اسکوائر میں حکومت کے خلاف ہزاروں افراد جمع ہوئے، جن میں اکثریت گزشتہ برس احتجاج کرنے والوں کی تھی تاہم گزشتہ برس کے مظاہروں کے مقابلے میں لوگوں کی تعداد کم تھی،یرغمالیوں کی رہائی میں حکومتی ناکامی پر برہم مظاہرین نے نیتن یاہو کو شیطان کا چہرہ قرار دیتے ہوئے نیتن یاہو حکومت پر اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے الزامات عائد کردئیے مظاہرین نے اسرائیلی پرچم تھاما ہوا تھا اور حکومت مخالف نعرے لگا رہے تھے اور ڈھول بجاتے ہوئے نیتن یاہو کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
حماس کے ساتھ جنگ میں مارے گئے ایک فوجی کے بھائی نوام ایلون نے بتایا کہ حکومت نے ہمیں جس طرح 7 اکتوبر کو چھوڑا تھا وہ سلسلہ تاحال جاری ہے، تبدیلی اور معاملات ٹھیک کرنے کے لیے طاقت ہمارے ہاتھ میں ہے اور اس حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیل میں نیتن یاہو کی حکومت غیرمقبول ہوگئی ہے اور غزہ کی 4 ماہ طویل جنگ کے دوران مارے جانے والے فوجیوں کے رشتہ داروں اور دیگر شہریوں کی جانب سے حکومتی اقدامات پر تنقید کی جارہی ہے اسرائیل میں 2023 میں حکومت کے خلاف آئے روز احتجاج اور پرتشدد مظاہرے ہو رہے تھے لیکن 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد شہریوں میں اتحاد نظر آیا تھا جہاں وہ حکومت اور فوج کی حمایت میں کھڑے ہوگئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ گزشتہ 4 ماہ سے جاری ہے اور اسرائیل میں رائے عامہ نیتن یاہو کے خلاف ہوگئی ہے اور قیادت کی تبدیلی کا مطالبہ کیا لیکن ان کی پوزیشن کو بظاہر کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آرہا ہے۔
دوسری جانب جنگی کابینہ میں بھی اختلافات سامنے آگئے ہیں کیونکہ نیتن یاہو حکومت میں برقرار رہنا چاہتا ہے، اپوزیشن لیڈر نے ایک ایسی متحدہ حکومت تشکیل دینے کی پیش کش کی ہے، جس میں نیتن یاہو کا کوئی کردار نہ ہو لیکن اس پر پیش رفت نہیں ہوئی۔
اسرائیل کی جانب سے حماس کے قبضے سے یرغمالیوں کو آزاد نہ کروانے پر اسرائیلی کابینہ میں اختلافات شدت اختیار کرگئے اسرائیلی نیوز ویب سائٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع نے وزیراعظم آفس پر دھاوا بول دیا اور صورتحال تقریباً ہاتھا پائی تک جاپہنچی۔
اسرائیلی فوج میں غزہ جنگ کی حکمت عملی پر بھی شدید اختلافات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو میں 3 کمانڈروں نے کہا کہ حماس کو شکست بھی دیں اور یرغمالی زندہ بھی بچائیں،دونوں کام ایک ساتھ ممکن نہیں،یرغمالیوں کی تیز ترین واپسی کا راستہ سفارتی طریقہ کار ہے۔
ادھر فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کا کہنا ہےکہ اسرائیل 100 روز بعد بھی بزور طاقت یرغمالیوں کو رہا کرانے میں ناکام رہا ہے، اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کو معاہدہ کرنا پڑے گا حماس رہنما موسیٰ ابو مرزوق کا روسی خبر ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا اسرائیل معاہدے کے ذریعے اپنے یرغمالیوں کو واپس لےگا یا ان کی لاشیں وصول کرے گا۔
واضح رہے 7 اکتوبر سے اب تک فلسطین شہدا کی تعداد 25 ہزار تک پہنچ گئی ہے، شہید ہونے والوں میں 70 فیصد خواتین شامل ہیں۔