ہیلمٹ۔صرف پہننا کافی نہیں، معیاری ہونا بھی ضروری
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
ہیلمٹ کا معیار اور ہماری سوچ
بحثیت قوم ہم نے آج تک قانون شکنی کو اپنا اوڈنا بچھونا بنا رکھا ہے کیونکہ رشوت کا بازار جہاں گرم ہوگا اداروں کی کارکردگی ان کی اپنی خواہش کے مطابق ہوگی جو ہم 78 سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایک الگ بات ہے ہر آنے والی حکومت یہی سوچ کر آتی ہے کہ ہم کرپشن پر قابو پالیں گے، بس اس سے آگے کا کام مشکل ہے۔ آج ہم اسی تناظر میں ہیلمٹ کے معیار پر بات چیت کرتے ہیں۔

قارئین! اگر ہم شہروں اور دیہات کی سڑکوں پر نظر دوڑائیں تو ایک چیز عام دکھائی دیتی ہے کہ ہیلمٹ کا استعمال بڑھ تو گیا ہے، مگر معیاری ہیلمٹ کا تصور ابھی بھی ہم سے کوسوں دور ہے۔ ٹریفک پولیس آئے روز سواروں کو ہیلمٹ پہننے کی تلقین کرتی ہے، مگر کیا کبھی اس بات پر توجہ دی گئی کہ عوام جو ہیلمٹ پہن رہے ہیں وہ صحت مند، مضبوط اور عالمی معیار کے مطابق ہیں بھی یا نہیں؟

ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ہیلمٹ پہننے کا مقصد صرف جرمانہ سے بچنا سمجھا جاتا ہے۔ یہ رویہ انسانی جان کی قدر میں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہیلمٹ کسی بھی حادثے میں زندگی اور موت کے درمیان کھڑی وہ آخری دیوار ہے جس پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ مگر افسوس! ہم اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور صرف ہمارا مقصد چالان سے بچنا ہے جو بالکل غلط سوچ ہے۔

ہمارے معاشرے میں “ڈنگ ٹپاؤ” پالیسی بہت مضبوطی سے رچ بس گئی ہے۔ موٹر سائیکل سوار صرف یہ دیکھتا ہے کہ کچھ بھی سر پر رکھ لو، پولیس چالان نہیں کرے گی۔ اسی سوچ نے بازاروں میں ناقص، غیر معیاری، غیر رجسٹرڈ اور کمزور ہیلمٹ کو فروغ دیا ہے۔ ان میں نہ کوئی حفاظتی تہہ ہوتی ہے، نہ شیل مضبوط ہوتا ہے، نہ جھٹکا جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ حادثے کی صورت میں یہ ہیلمٹ ٹوٹ کر مزید نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ اکثر لوگ سیفٹی ہیلمٹ کا استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

پولیس نے ہیلمٹ پہننے کی پابندی تو سخت کر دی ہے، جو کہ مثبت قدم ہے۔ لیکن اس کے ساتھ پولیس کو ہیلمٹ کے معیار پر بھی سختی لانا ہوگی۔ اگر ایک شہری نے صرف ٹوپی نما ہیلمٹ پہنا ہوا ہے، تو اس سے اصل مقصد یعنی جان کی حفاظت پوری نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک دھوکہ ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہیلمٹ کے معیار کے لیے مخصوص اسٹینڈرڈ موجود ہیں جیسے DOT، ECE یا Snell۔ پاکستان میں بھی اگر ٹریفک پولیس اور ضلعی انتظامیہ مشترکہ طور پر معیاری ہیلمٹ سرٹیفکیشن کا نظام بنائے تو غیر معیاری ہیلمٹ کی فروخت خود بخود ختم ہونے لگے گی۔

ہماری غفلت جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ ہم صرف چالان کو ترجیح دیتے ہیں، جو کہ ایک قومی المیہ ہے۔ ہر سال ہزاروں افراد سڑک حادثات میں شدید زخمی ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت وہ ہوتی ہے جن کے پاس ہیلمٹ تو موجود ہوتا ہے، لیکن وہ ناکام ہیلمٹ ہوتا ہے۔ یہ ایک قومی سانحہ ہے جس پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ سڑک پر تیز رفتاری، اوورلوڈنگ، اور لائسنس کے بغیر ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ غیر معیاری حفاظتی آلات بھی ہمارے حادثات کی بڑی وجہ ہیں۔

صرف پولیس ہی نہیں، عوام کو بھی معیاری ہیلمٹ کی بنیادی پہچان سمجھنی چاہیے۔ ہیلمٹ کی اندرونی تہہ جھٹکا جذب کرنے والی ہو، فوم کی موٹائی مناسب ہو، باہر کا خول ٹھوس اور سخت ہو، پٹا مضبوط ہو اور آسانی سے نہ ٹوٹے، ہیلمٹ پر مینوفیکچرر کا نام اور اسٹینڈرڈ نمبر درج ہو، اور انتہائی ہلکا، کھوکھلا یا پلاسٹک نما ہیلمٹ کبھی نہ خریدا جائے۔

ہماری زندگیاں قیمتی ہیں۔ صرف رسمی کارروائی پوری کرنے کے لیے ناقص ہیلمٹ پہن لینا سمجھداری نہیں۔ زندگی کو ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ حکومت، پولیس، میڈیا، اور عوام سب کو مل کر یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ معیاری حفاظتی سامان استعمال کرنا ہی اصل بچاؤ ہے۔

آخر میں ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ ہیلمٹ صرف سر ڈھانپنے کا نام نہیں، بلکہ زندگی بچانے والی ڈھال ہے اور ڈھال ہمیشہ مضبوط ہونی چاہیے۔ آج ہی سے ہم خود سے وعدہ کریں کہ ہمیں اپنی حفاظت خود کرنا ہے۔

Shares: