آپ جانتے ہوں گے ۔کچھ دن پہلے پورے پاکستان میں یکساں تعلیمی نصاب کا قانون بنا دیا گیا ہے ۔۔اور پرائمری لیول تک پورے ملک میں یکساں نصاب پڑھایا جاے گا ۔اس پر ایک مخصوص گروہ کی جانب سے تنقید کی جارہی ہے ۔ہمارا مسئلہ يہ ہے کہ ہم ہر چيز کو مخصوص عينک لگا کر ديکهتے ہيں اور اپنے مطلب کے معنی اخذ کرتے ہيں۔يہی وجہ ہے کہ ہميں صرف قابلِ اعتراض چيزيں ہی نظر آتی ہيں جو بعض اوقات قابلِ اعتراض ہوتی بهی نہيں ہيں۔۔جیسے دین بیزار feminists،liberals پاگلوں کی طرح نئے یکساں تعلیمی نصاب کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ تڑپ رہے ہیں۔ لڑکی کو نماز پڑھتی کیوں لکھا، عورتوں کو دوپٹے میں کیوں دکھایا، لڑکے فٹبال کھیلتے کیوں لکھا لڑکی کیوں نہیں، لڑکی گھر کی صفائی کرتی کیوں دکھائی، عورتوں کو ٹیچر اور نرس ہی کیوں دکھایا۔ لڑکی زمین پر بیٹھی لڑکا کرسی پر کیوں ۔لڑکا زمین پر بیٹھا تو لڑکی کرسی پر کیوں ۔ان کے اعتراضات یا تنقید سے لگتا ہے کیا کہ کہیں سے بھی یہ پڑھے لکھے شعور والے لوگ ہے انھوں نے دنیا گھوم لی جہازوں میں سفر کر لیے ۔ہر ملک جا کر گوروں ساتھ سیلفیاں بھی بنوا لی لیکن ان کی سوچ سے آج بھی جھونپڑی میں رہنے والے اس محنت کش مزدور کی سوچ اچھی ہے جو ٹوٹی سائیکل پر بھی پرچم لگاتا ہے اور وطن سے محبت کا اظہار کرتا ہے. یہ کیسے لوگ ہے جو دنیا بھر میں پاکستانی پاسپورٹ پر گھومتے ہیں اور پھر گوروں کے سامنے اپنے ملک کو بدنام کرنے واسطے کچھ بھی بولتے رہتے ہیں ۔
ہم ایک پاکستانی ہے ایک قوم ہے مانتے ہیں نہ تو ہم ایک نصاب کیوں نہیں بنا سکتے ہیںایک نصاب کیوں نہیں پڑھ سکتے ۔ ۔۔یکساں تعلیمی نصاب کی تجدید صرف کپتان نے اکیلے نے نہیں کی ۔ ۔اعلی تعلیم یافتہ افراد اور اسکالرز نے کی ہے. موجودہ معاشرے کے تمام اہم پہلو اور اخلاقیات کو بہتر کرنے کے حوالے سے مضامین شامل کئے گئے ہیں. تمام بڑے پبلشرز، سرکاری تعلیمی بورڈ اور پرائیوٹ اسکولوں منیجمنٹ ٹاسک فورس بھی اس میں شامل تھی.تنقید کرنے والے اس سے لاعلم ہیں۔۔۔تنقید کرنے والے کیا نہیں چاہتے کہ اس ملک کا غریب بھی پڑھ لکھ سکے ۔۔کیا نہیں چاہتے کہ جو کتابیں ان کے بچے پڑھ رہے ہیں ۔وہی کتابیں غریب کا بچہ بھی پڑھ سلے اپنا اچھا مستقبل بنا سکے ۔۔۔اگر ایسا نہیں تو تنقید اور حکومت کے اس فیصلے کو برا بھلا کیوں بول رہے ہیں
یکساں نصاب کے اس فیصلے کو ہر باشعور پاکستانی کیطرف سے قابل تحسین قرار دیا گیا۔
لیکن بیکن ھاؤس کے پرنسپل مائیکل تھامس نے اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیا تھا ۔اس انکار کی وجہ شاید آپ جانتے ہی ہوں دو تین سال باقاعدہ سوشل میڈیا پر بیکن ہاوس کے خلاف کمپین چلائ گئ تھی ۔اس کمپین میں پڑھائے جانے والی نصابی کتب کے سکرین شاٹس شئیر ہوئے جن میں پاکستان کے ایسے نقشے تھے جہاں مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے علاوہ گلگت بلتستان کو بھی انڈیا کا حصہ دکھایا گیا تھا اور ان کتابوں میں ان کو ” انڈین سٹیٹس” لکھا ہوا تھا ۔
بیکن ھاؤس پاکستان کا سب سے مہنگا سکول ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بیکن ھاؤس ماہانہ 5 تا 6 ارب اور سالانہ 60 تا 70 ارب روپیہ پاکستانیوں سے نچوڑتا ہے۔۔مطلب اتنا پیسہ کماتا ہے پاکستان سے ۔وہ بھی کس لیے؟ پاکستانی بچوں کے دماغوں میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کے واسطے ۔
اس کے علاوہ لبرل ازم کا علمبرادار ” بیکن ھاؤس ہر سال پاکستانی سوسائٹی میں اپنے تربیت یافتہ کم از کم 4 لاکھ طلبہ گھسیڑ رہا ہے۔ یہ طلبہ پاکستان کے اعلی ترین طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سرکاری اداروں کے بڑے بڑے بیوروکریٹ، صحافی، سیاستدان، بزنس مین اور وڈیرے شامل ہیں۔
مشہور زمانہ گرفتار شدہ ملعون آیاز نظامی کے الفاظ شائد آپ کو یاد ہوں جس کا کہنا تھا
ہم نے تمھارے کالجز اور یونیوسٹیز میں اپنے سلیپرز سیلز ( پروفیسرز اور لیکچررز ) گھسا دئیے ہیں۔ جو تمھاری نئی نسل کے ان تمام نظریات کو تباہ و برباد کر دینگے جن پر تم لوگوں کا وجود کھڑا ہے۔ انہیں پاکستان کی نسبت پاکستان کے دشمن زیادہ سچے لگیں گے۔ وہ جرات اظہار اور روشن خیالی کے زعم میں تمھاری پوری تاریخ رد کردینگے۔ انہیں انڈیا فاتح اور تم مفتوح لگو گے۔ انہیں تمھارے دشمن ہیرو اور خود تم ولن نظر آؤگے۔ انہیں نظریہ پاکستان خرافات لگے گا۔ اسلامی نظام ایک دقیانوی نعرہ لگے گا اور وہ تمھارے بزرگوں کو احمق جانیں گے۔ وہ تمھارے رسول پر بھی بدگمان ہوجائینگے حتی کہ تمھارے خدا پر بھی شک کرنے لگیں گے
صرف بیکن ہاوس ہی نہیں بہت سے ایسے پرائیویٹ اسکولز کالجز ہوں گے جن کا اکثر نصاب سرکاری سکولوں میں پڑھائ جانے والی کتابوں سے بہت حد تک مختلف ہوتا ہے
پرائیویٹ سکول میں پڑھنے والے اکثریت بچوں کی اسلام بارے الف ب نہیں جانتی ہوتی ان کو یہ تک نہیں پتہ ہوتا کہ آل رسول کون ہے ان کے نام کیا ہے اصحابیات کون تھے ۔۔
ایسی بہت ساری چیزیں جو اہم ہے جاننا ہمارے دین کا حصہ ہے وہ پرائیویٹ سکولوں میں نہیں پڑھائ جاتی ۔۔۔ان سکولوں کا مقصد صرف انگلش پہ فوکس ہوتا ہے پھر انگلش میں چاہے یہ پاکستان کے خلاف پڑھاتے رہیں ۔یا دین اسلام کے ۔۔لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سکول پوری ریاست کی مخالفت کررہا ہے ۔ایک ملک کی مخالفت کررہا ہے ۔۔میرا رائے ہے ۔۔فقط تعلیم.میں نہیں تمام ڈیپارٹمنٹ یکساں ہونے چاہیے تاکہ غریب اور امیر کا امتیاز مٹ جائے۔۔۔اور کسی کے دماغ میں بھرا امیر بھرتر والا خناس بھی مٹ جاے ۔۔۔یکساں تعلیمی نصاب سے نوجوانوں کا مستقبل روشن ہوگا ۔۔میرٹ بھی عام ہوگا ۔۔یہ فرق بھی مٹ جاے گا کہ جی میں تو فلاں کالج سکول سے مہنگی فیسوں پر پڑھا ۔پڑھی ہوں ۔تو میری اہمیت سرکاری سکول میں پڑھنے والے بچے سے زیادہ ہو ۔۔۔یکساں تعلیمی نصاب حکومت پاکستان کا بہترین فیصلہ ہے ۔خدارا حکومت کے بغض میں غریب سے حسد تو نہ کریں ۔۔۔حکومت کے اس فیصلے کو سراہیں تاکہ جلد از جلد تمام سکول کالجز میں یکساں تعلیمی نصاب کا سلسلہ جاری ہو سکے ۔۔سڑک میں پڑھا پتھر ثابت نہ ہوں۔۔۔بلکہ دوسروں کے لیے امید کی کرن بنیں
۔
یکساں تعلیمی نصاب اور روشن پاکستان تحریر؛حنا
