سڈنی ہاربر برج پر فلسطینی عوام کے حق میں ایک بڑا احتجاجی مارچ "مارچ فار ہیومینیٹی” کے عنوان سے منعقد ہوا، جس میں شدید بارش کے باوجود ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
یہ احتجاج سپریم کورٹ کی جانب سے مارچ کی اجازت دیے جانے کے صرف 24 گھنٹے بعد ممکن ہو سکا۔مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر اسرائیل اور امریکا کے خلاف نعرے درج تھے، اور وہ جنگ بندی کے فوری مطالبات کر رہے تھے۔مظاہرین نے ’’شرم کرو، شرم کرو اسرائیل‘‘،’’ہمیں کیا چاہیے؟ جنگ بندی، کب چاہیے؟ ابھی‘‘ کے نعرے پلے کارڈز پر درج کر رکھے تھے.مظاہرے میں وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج، رکن پارلیمنٹ ایڈ ہوسیچ اور باب کار بھی شریک ہوئے، جب کہ متعدد خاندان چھوٹے بچوں سمیت مارچ میں شامل تھے۔
ایلیک بیول نامی ایک والد نے کہا کہ مجھے معلوم ہے یہ دنیا کے دوسرے کونے کا مسئلہ ہے، مگر اس کا یہاں بھی اثر ہے۔زرا ولیمز، جو اپنی بیٹی کو ساتھ لائی تھیں، نے کہا ہماری حکومت اسرائیل پر کوئی قابل ذکر پابندی نہیں لگا رہی، خاموش رہنا ناقابل قبول ہے۔‘‘نیو ساوتھ ویلز پولیس نے مارچ روکنے کی کوشش کی تھی، تاہم سپریم کورٹ کی جسٹس بیلنڈا رِگ نے پولیس کی اپیل مسترد کرتے ہوئے مظاہرین کو سڑکوں اور ہاربر برج استعمال کرنے کی اجازت دی۔عدالت نے تسلیم کیا کہ سکیورٹی خدشات حقیقی ہیں، مگر مظاہرین کے ’’موثر دلائل‘‘ نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اجازت کا جواز فراہم کیا۔
تقریباً دو گھنٹے بعد مظاہرین کو پولیس کی جانب سے ایس ایم ایس موصول ہوا، جس میں عوامی تحفظ کی خاطر مارچ روکنے اور مظاہرین کو شہر کی جانب منظم طریقے سے واپس جانے کی ہدایت دی گئی۔مارچ کے باعث سڈنی میں ٹریفک اور پبلک ٹرانسپورٹ نظام میں تاخیر اور خلل پیدا ہوا۔ٹرانسپورٹ فار این ایس ڈبلیو نے شہریوں کو شہر سے گریز کی ہدایت جاری کی۔”فلسطین ایکشن گروپ” نے اسے ایک "تاریخی” کامیابی قرار دیا اور کہا کہ "غزہ میں جاری مظالم پر عالمی خاموشی ناقابل قبول ہے”۔
بالی ووڈ فلم ساز پاک بھارت جنگ سے منافع بخش حب الوطنی کمانے کے درپے
امرناتھ یاترا سکیورٹی اور موسمی خدشات کے باعث قبل از وقت ختم
ٹرمپ کی جانب سے عائد محصولات برقرار رہیں گے، امریکی اعلان
سابق وزیراعظم آزاد کشمیر عبدالقیوم نیازی 9 مئی کیس میں گرفتار








