اوچ شریف (باغی ٹی وی، نامہ نگار حبیب خان) پنجاب بھر میں 7 ہزار قبل مسیح سے لے کر برٹش دور تک کے 1183 آثار قدیمہ کی سائٹس کھدائی نہ ہونے کے باعث مٹنے کے خطرے سے دوچار ہو چکی ہیں۔ محکمہ آثار قدیمہ کی 29 سال پرانی تحقیق کے مطابق ان میں سے کسی ایک مقام پر بھی عملی کام شروع نہیں کیا جا سکا۔ فنڈز کی عدم دستیابی اور حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے ہزاروں سالہ تاریخی ورثہ زمین میں دفن ہو کر معدوم ہونے لگا ہے۔

1992 میں مرتب کی گئی محکمانہ فہرست کے مطابق صرف بہاولپور اور چولستان میں 454 سائٹس موجود ہیں، جبکہ مجموعی طور پر صوبے بھر میں 7 ہزار قبل مسیح کی 19، 3300 قبل مسیح کی ہاکڑہ تہذیب، 2500 قبل مسیح کی ہڑپہ کے ابتدائی دور کی 56، درمیانے دور کی 31، 1400 قبل مسیح کی 5، 700 قبل مسیح کی 256 سائٹس، ابتدائی اسلامی دور (آٹھویں تا گیارہویں صدی) کی 145، سلاطین دور (12ویں تا 15ویں صدی) کی 195، مغلیہ دور (15ویں تا 18ویں صدی) کی 324 اور سکھ و برطانوی دور (18ویں صدی تا 1947) کی 176 سائٹس شامل ہیں۔

ضلع بہاولپور میں 60، ملتان میں 50، خانیوال میں 51، وہاڑی میں 39، لودھراں میں 36، راجن پور میں 11، ڈیرہ غازی خان میں 14، مظفر گڑھ میں 20، لیہ میں 11 اور جھنگ میں 55 آثار قدیمہ کی نشان دہی کی جا چکی ہے۔ اوچ شریف میں محلہ بخاری جبکہ چولستان میں قلعہ ڈراوڑ سے 40 کلومیٹر دور گویری والا اور کڈھ والا سائٹس یزمان کی ہڑپہ دور کی تاریخ بیان کرتی ہیں، جن کی کھدائی سے قبل مسیح کے قدیم شہر منظر عام پر آ سکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان مقامات پر سنجیدہ کھدائی شروع کی جائے تو پنجاب میں ہڑپہ اور سندھ میں موہنجو داڑو کے درمیانی دور کی مکمل گمشدہ تہذیب کو دریافت کیا جا سکتا ہے۔ تاہم محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے آج تک کسی بھی سائٹ پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا، جس کے باعث یہ قیمتی ورثہ وقت کے ساتھ مٹتا جا رہا ہے۔ ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری فنڈز فراہم کر کے ان تاریخی مقامات کی کھدائی اور تحفظ کا عمل شروع کیا جائے تاکہ ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کی بقا ممکن ہو سکے۔

Shares: