سوڈان 90 فیصد مسلم اکثریتی آبادی والا ملک ہیں جو 1 جنوری 1956 کو مصر اور برطانیہ کی مشترکہ حکمرانی سے آزاد ہوا جسے آزادی سے قبل Anglo Egyptian Sudan کہا جاتا تھا

آزادی کے بعد پہلا جمہوری دور 1956 سے 1958 تک چلا جس میں بھوک و افلاس اور خانہ جنگی نے جنم لیا تو فوجی سربراہ جنرل عبود نے 1958 کو اقتدار سنبھالا تاہم وہی معاشی بحران اور خانہ جنگی کا ماحول قائم رہا ،عوام نے احتجاج کیا تو 1964 میں جنرل عبود نے استعفی دے دیا،اس کے بعد 1964 سے 1969 تک بار بار جمہوری حکومتیں بدلے جانے والا مختصر جمہوری دور آیا مگر وہ بھی ناکام رہا جس میں عوام کو خوشحالی نا مل سکی تو بلاآخر جنرل جعفر نمیری نے 1969 سے 1985 تک اقتدار سنبھالے رکھا تاہم پھر بھی عوام کی قسمت نا بدلی تو عوامی احتجاج پر 1985 میں صادق المہدی کو بذریعہ جمہوریت منتخب کیا گیا تاہم وہی چکی کے دو پاٹ والی بات،1985 میں عوامی احتجاج پر فوجی سربراہ جنرل عمیر البشیر نے اقتدار سنبھالا مگر حالات نا بدلے اور بالاخر 2019 کے عوامی احتجاج پر انہیں معزول ہونا پڑا

30 جون 1989 میں فوجی بغاوت کے ذریعے اس وقت کے سوڈانی وزیراعظم صادق المہدی کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالنے والے جنرل عمر البشیر نے لگ بھگ 30 سال حکومت کی جو کہ سب سے لمبا دور حکومت تھا مگر عوام کی قسمت پھر بھی نا بدل سکی،سوڈان میں حالیہ خانہ جنگی عمر البشیر کی 30 سالہ آمریت کے خاتمے پر شروع ہوئی تھی، حکومت کے خاتمے کے بعد فوج اور نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز نے مل کر عبوری حکومت سنبھالی تاکہ ملک کو جمہوریت کی طرف لے جایا جائے لیکن جلد ہی طاقت کی رسہ کشی شروع ہو گئی اور اس بات پر تنازعہ ہو گیا کہ طاقت فوج کے زیرِ اثر حکومت کے پاس رہے گی یا پھر آر ایس ایف کے پاس رہے گی

دونوں فریقوں میں RSF کے مکمل طور پر فوج میں ضم ہونے کے معاملے پر اختلاف بڑھا،اور فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان اور آر ایس ایف کمانڈر محمد حمدان دقلو عرف حمیدتی کے آپس میں تعلقات خراب ہو گئے تو دارالحکومت خرطوم میں دونوں طرف سے جھڑپیں شروع ہو گئیں جو بہت جلد مکمل جنگ میں بدل گئیں اور خون کی ہولی کاایک بار پھر سے آغاز ہو گیا جو تاحال جاری ہے،یہ خانہ جنگی اب پورے سوڈان میں پھیل گئی ہے مملکت کے بڑے بڑے شہر دارفور، خرطوم، اور نیل تک خون ہی خون پھیل گیا جس کے باعث
لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں، اس خانہ جنگی سے صحت و خوراک کا نظام تباہ ہو گیا جو پہلے ہی قلیل تھا

واضع رہے کہ موجودہ تنازعہ دو بڑی فوجی طاقتوں کے درمیان ہے جن میںSudanese Armed Forces
یعنی SAF اور Rapid Support Forcesیعنی RSF شامل ہیں، یہ دونوں اپنی طاقت اور سیاسی اثر و رسوخ کے لئے لڑ رہے ہیں جس میں عوام ماری جا رہی ہے ،وہ عوام کہ جس مفلوک الحال نے مملکت کے قیام سے ابتک سکھ کا سانس لیا ہی نہیں تھا اور نا پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا، اب پھر سے خوراک کی قلت، تباہ حال نظام صحت، بڑے پیمانے پر بے گھری، اور بیماریوں کا پھیلاؤ ہر طرف راج کر چکا ہے،کچھ علاقوں میں بھوک انسانی زندگی کے لیے براہِ راست خطرہ بن گئی ہے،بہت سے ہسپتال بند یا ناقابل استعمال ہو چکے ہیں کیونکہ ادویات کی ترسیل نا ہونے کے برابر ہے،شمالی دارفور، اور الفاشر کی صورتحال خاص طور پر خطرناک ترین ہے کیونکہ وہاں بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ہوئی ہے، یہ خانہ جنگی صرف اقتدار کی جنگ نہیں بلکہ انسانی نسل کشی ،انسانی حقوق کی پامالی، مہاجرین کی بے بسی اور خوراک و ادویات کی قلت سے مرتی انسانیت کی تذلیل کا عملی مظاہرہ بھی ہے

بھوک اور غذائی قلت تقریباً نصف ملک یعنی 25 ملین لوگ کے سروں پر سوار ہے،ایک ملین کے قریب لوگ انتہائی خطرناک زندگیاں گزار رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس نا تو کھانے کو کچھ ہے نا رہنے کو کیمپ ہیں یعنی کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار مذید 9 ملین لوگ غذائی و ادویائی قلت کا شکار ہونے کے قریب تر ہیں،اس حالیہ خانہ جنگی میں ابتک تقریباً 150000 سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی بھی بہت بڑی تعداد ہے،پورے ملک میں نا تو مناسب طریقے سے انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے اور نا ہی دیگر ضروریات زندگی
واضع رہے کہ زیادہ تر لوگ گولیوں کی بجائے بھوک اور علاج نا ہونے سے مرے ہیں،آنے والے دن مذید سنگینی کو واضع کرتے ہیں

Shares: