ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید روح اللہ خامنہ ای نے شام میں حالیہ اقدامات کے حوالے سے ایک اہم بیان دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ شام میں ہونے والے اقدامات کے بعد مزاحمت ختم ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حزب اللہ کے خاتمے کا سوچنے والی اسرائیلی حکومت خود مٹ جائے گی۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل کی جانب سے شام میں جارحیت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے مزاحمت کی حمایت کی جائے گی۔
ایران کے سپریم لیڈر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب اسرائیل کی فوج جنوبی شام میں اپنی پیش قدمی کو جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کے حملے شدت اختیار کر چکے ہیں۔ ایران نے بار بار اس بات کی تاکید کی ہے کہ شام میں اسرائیلی فوج کی مداخلت علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
دریں اثنا، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان نے ایک اہم ملاقات کی جس میں شام کی تعمیر نو اور مہاجرین کی واپسی کے لیے مشترکہ اقدامات پر بات چیت کی گئی۔ ترک صدر اور یورپی کمیشن کی صدر نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں فریق شام میں استحکام لانے کے لیے مل کر کام کریں گے اور یہ کہ شام کی تعمیر نو میں یورپی یونین کا کردار اہم ہو گا۔اس ملاقات میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ترکی اور یورپ مشترکہ طور پر شام کے تعمیراتی منصوبوں میں حصہ لیں گے تاکہ نہ صرف وہاں کی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے بلکہ لاکھوں شامی مہاجرین کی اپنے وطن واپسی کے عمل کو بھی تیز کیا جا سکے۔
اسی دوران، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی ہوا جس میں شام کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے نے شام پر عائد پابندیوں کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ شام میں جاری جنگ کی وجہ سے وہاں کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور بین الاقوامی سطح پر عائد اقتصادی پابندیاں اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ ان پابندیوں کو ختم کرکے شام کی تعمیر نو کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کی فوج جنوبی شام میں اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہے اور اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے دریائے یرموک کے علاقے پر مکمل قبضہ کر لیا ہے۔ اسرائیل کی فوج نے اس علاقے میں موجود حزب اللہ کے جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل کی فضائیہ نے مقبوضہ گولان کے علاقے قلمون میں بمباری کی ہے۔مقبوضہ گولان میں بمباری کا یہ واقعہ اسرائیل کی جانب سے اپنی جنگی حکمت عملی کو مزید تیز کرنے کی نشاندہی کرتا ہے، اور اس سے خطے میں ایک نیا تنازعہ شدت اختیار کر سکتا ہے۔
مجموعی طور پر شام کی صورتحال انتہائی پیچیدہ اور کشیدہ ہے۔ ایران اور حزب اللہ کی جانب سے مزاحمت کے عزم کا اظہار، اسرائیل کی فوج کی جارحانہ کارروائیاں اور ترکی و یورپی یونین کا شام کی تعمیر نو کے لیے مشترکہ اقدام، اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ایک نیا جیو پولیٹیکل توازن بن رہا ہے۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ کی طرف سے شام پر پابندیوں کے خاتمے کی درخواست اور اسرائیل کی جارحیت خطے میں امن کے قیام کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔