حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد، ایرانی حمایت یافتہ لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف ایک اہم فوجی کارروائی کا آغاز کیا ہے، جس میں تل ابیب کے قریب واقع اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس بیس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس حملے کا مقصد نصراللہ کے مقام و مرتبے کو برقرار رکھنا اور اسرائیل کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے۔حزب اللہ نے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے "فوجی انٹیلی جنس یونٹ 8200 کے گلیلوٹ بیس” اور تل ابیب کے مضافات میں واقع "موساد کے ہیڈ کوارٹر” پر فادی 4 راکٹوں کا ایک سالوو لانچ کیا ہے۔ حزب اللہ نے اس آپریشن کا نام "آپ کی خدمت میں نصراللہ” رکھا ہے، جو اس بات کا اظہار ہے کہ یہ حملہ ان کے سابق سربراہ کے نام سے منسوب ہے۔یہ حملہ حسن نصراللہ کی اگست کے آخر میں کی گئی اس دھمکی کے بعد کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کا گروپ اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں کرنے کے لیے تیار ہے، اور اس میں "گلیلوٹ اڈے اور اہم اسرائیلی فوجی انٹیلی جنس بیس” کو نشانہ بنایا جائے گا۔ادھر، اسرائیلی فوج نے اس حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ اس وقت تنصیب پر حملہ کرنے میں ناکام رہی تھی، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس عسکری گروپ کے آپریشن کی تفصیلات اور ان کی منصوبہ بندی میں کچھ ناکامیاں بھی موجود ہیں۔

اس کارروائی کے بعد، اسرائیلی فضائیہ نے شام میں بھی حملہ کیا، جس کے نتیجے میں خاتون صحافی سمیت تین شہری جاں بحق ہو گئے۔ یہ واقعہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اس خطے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور ایک نئی جنگ کا امکان موجود ہے۔حزب اللہ کے اس تازہ ترین حملے نے نہ صرف اسرائیل کی دفاعی حکمت عملی کو چیلنج کیا ہے، بلکہ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ لبنانی تنظیم اپنی قوت اور عزم میں کمیاب نہیں ہوئی ہے۔ اس دوران عالمی برادری اور علاقائی طاقتیں اس نئی صورت حال کو بغور دیکھ رہی ہیں، جبکہ اسرائیل کی حکومت اور فوجی حکام اس حملے کا مؤثر جواب دینے کے لیے متحرک ہیں۔اس واقعے کے بعد سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے، اور دونوں فریقین کے درمیان ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر عسکری کارروائیاں متوقع ہیں۔ یہ حملہ اس بات کی علامت ہے کہ خطے میں جاری سیاسی اور فوجی مسائل کی پیچیدگیوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، جس کے اثرات عالمی امن و امان پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا اس کارروائی کے نتیجے میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا یا اس سے بات چیت کی راہ ہموار ہوگی۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اس واقعے کا اثر ہو سکتا ہے، خاص طور پر ان ممالک پر جو اس خطے میں استحکام کی کوششیں کر رہے ہیں۔

Shares: