ہم کو بھی خوش نما نظر آئی ہے زندگی ، جیسے سراب دور سے دریا دکھائی دے

0
56

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

محشر بدایونی

نام فاروق احمد اور تخلص محشر تھا۔ 04مئی 1922ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ اردو اور فارسی کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ 1947ء میں پاکستان آگئے۔ اگست 1950 میں محکمۂ سپلائی سے منتقل ہوکر ریڈیو پاکستان میں ’’آہنگ‘‘ کے مدیر معاون کے عہدے پر فائز ہوئے۔ پھر ایک عرصے تک ’’آہنگ ‘ ‘ کے مدیر رہے۔ ان کے والد تاریخ گو شاعر تھے۔

اس طرح شاعری محشر بدایونی کو ورثے میں ملی۔ غزل ان کی محبوب صنف سخن تھی۔ ریڈیو پاکستان سے ریٹائر منٹ کے بعد کراچی میں مستقل طور پر سکونت پذیر ہو گئے۔ 09 نومبر 1994ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’غزل دریا‘(آدمی جی ایوارڈ یافتہ) ’چراغ میرے ہم نوا‘، ’فصل فردا‘، ’شہروفا‘، ’گردش کوزہ‘، ’حرف ثنا‘، ’بین باجے‘، ’شاعر نامہ‘،’ سائنس نامہ‘، ’جگ مگ تارے‘ (بچوں کی شاعری)۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:131

اشعار
۔۔۔۔۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

جس کے لئے بچہ رویا تھا اور پونچھے تھے آنسو بابا نے
وہ بچہ اب بھی زندہ ہے وہ مہنگا کھلونا ٹوٹ گیا

ہم کو بھی خوش نما نظر آئی ہے زندگی
جیسے سراب دور سے دریا دکھائی دے

ہر پتی بوجھل ہو کے گری سب شاخیں جھک کر ٹوٹ گئیں
اس بارش ہی سے فصل اجڑی جس بارش سے تیار ہوئی

ابھی سر کا لہو تھمنے نہ پایا
ادھر سے ایک پتھر اور آیا

میں اتنی روشنی پھیلا چکا ہوں
کہ بجھ بھی جاؤں تو اب غم نہیں ہے

کرے دریا نہ پل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے

Leave a reply